اہل کشمیر کی بے بسی اور بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کی تیاری
محمد شہباز
مقبوضہ جموں وکشمیر میں جہاں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں معصوم کشمیری نوجوانوں کے قتل عام کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے،صرف ایک ہفتے میں بارہ کشمیری نوجوانوں کا خون بہایا گیا ہے وہیں مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی سفاکوں کو کشمیریوں کو مارنے کی کلین چٹ دی جاتی ہے ،جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ ماہ سرینگر کے علاقے حیدر پورہ میں ایک جعلی مقابلے کے دوران شہید ہونے والے کشمیریوں الطاف احمد بٹ اور ڈاکٹر مدثر گل کے اہلخانہ نے ان کے ماورائے عدالت قتل کے بارے میں بھارتی پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے من گھڑت قرار دیدیاہے۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ الطاف احمد بٹ اور ڈاکٹرمدثر گل کو دیگر دو نوجوانوں کے ہمراہ بھارتی فوجیوںنے بلا جواز طورپر وحشیانہ تشدد کانشانہ بنانے کے بعد شہیدکیاتھا۔ الطاف احمد بٹ کے بھائی عبدالمجید بٹ نے بھارتی پولیس کی رپورٹ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ پولیس رپورٹ سراسر جھوٹ اور بے بنیاد ہے اور وہ اسے مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ان کے بھائی کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات موجود تھے۔ الطاف کو انسانی ڈھال کے طورپر استعمال کیاگیا۔ اور وہ بھارتی پولیس کے موقف کو تسلیم کرنے کیلئے ہرگزتیار نہیں ہیں کیونکہ وہ اس سانحے میں ملوث اپنے اہلکاروں کو محفوظ راستہ دینا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھی طرح سے تیار کردہ کہانی لگتی ہے۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پریوں کی کہانی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
شہید ڈاکٹر مدثر گل کی اہلیہ حمیرا گل نے بھی بھارتی پولیس کے دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے شوہر ایک ڈاکٹر تھے اور وہ اپنے خاندان، چھوٹی بیٹی، بیوی اور معمر والدین کو کیوں کر دائو پر لگائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ بھارتی پولیس کو انہیں واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج دکھانی چاہیے جس میں مبینہ طورپر ڈاکٹر مدثر گل ایک عسکری نوجواں بلال کولیکر جاررہے تھے۔ حمیرا گل نے کہا کہ سچ یا تو وہ جان چکے ہیں جن کو قتل کیا گیا یا قتل کرنے والوں کو۔ اس کا کردار ایک کھلی کتاب ہے اور اس کے دوست اور وہ اس کی بیوی کے طور پر جانتے ہیںکہ ا س کاشوہر کس قسم کا شخص تھا۔واضح رہے کہ بھارتی فوجیوں نے15 نومبر کو سرینگر کے علاقے حیدر پورہ میں چار شہریوں تاجر محمد الطاف بٹ، ڈاکٹر مدثر گل، عامر احمد ماگرے اور ایک کشمیری نوجوان کو ایک عمارت میں گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا۔
حیدر پورہ فرضی تصادم میں مارے گئے سنگلدان گول رام بن کے عامر ماگرے کے والد لطیف ماگرے نے بھارتی پولیس کی طرف سے اس کے بیٹے کو شہید کئے گئے مجاہد کا ساتھی قرار دینے کو بے بنیاد اور غلط بیانی پر مبنی تحقیقات کو مسترد کیا ۔ انہوں نے بھارتی پولیس کے خلاف ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ عامر ماگرے کے بارے میں پولیس تحقیقاتی ٹیم نے بتایا کہ عامر ماگرے ایک مجاہد کا ساتھی تھا۔ عامر ماگرے کے والد لطیف ماگرے نے جموں ہائی کورٹ میں ایڈوکیٹ دیپیکا رجاوت کے ذریعے اپنے بیٹے کی لاش کی واپسی اور کیس کی از سر نو تحقیقات کرانے کیلئے درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لطیف ماگرے نے بتایا کہ وہ پولیس کی طرف سے منظر عام پر لائی گئی تحقیقاتی رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور اس کے بیٹے کے بارے میں پولیس تحقیقاتی رپورٹ بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔ انہوں نے ایڈوکیٹ دیپیکا رجاوت سے اس کیس کی پیروی کرنے کیلئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ عدالت سے انہیں انصاف ملے گا۔ عامر ماگرے کے اہل ِ خانہ نے میڈیا کو بتایا ہے کہ ہم خود کشی کر لیں گے تاکہ ہم جرم بے گناہی کی سزا سے آزاد ہو جائیں۔
اب بھارتی پولیس نے اس سلسلے میں قائم کی جانے والی SIT کی رپورٹ کو سامنے لاکر یہ کہا ہے کہ حیدر پورہ میں مارنے جانے والے چاروں لوگ بھارتی انتظامیہ کے نزدیک مشکوک تھے،لہذا بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو اس میں ملوث نہیں ٹھراہا جا سکتا ہے۔بھارتی پولیس کی مذکورہ رپورٹ پر مقبوضہ کشمیر کے ہر مکتبہ فکر نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے حسب سابقہ بھارتی فوجیوں اور پولیس کے جرائم پر پردہ ڈالنے او ر انہیں کشمیریوں کا قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ سے تعبیر کیا ہے۔اس بربریت پر بھارت نواز بھی سراپا احتجاج اور سیخ پا ہیں۔
بھارت نوازوںنے حیدر پورہ واقعے پر بھارتی پولیس تحقیقاتی نتائج کو ریاست کی طرف سے تشدد کو جائز قرار دینے کے لیے ایک بے سود عمل قرار دیا ہے۔ سماجی ویب سائٹ ٹویٹر پر سلسلہ وار ٹویٹ کرتے ہوئے سجاد لون نے کہا کہ یہ مقبوضہ کشمیر میںگزشتہ تین دہائیوں سے ہزاروں تحقیقات میں سے صرف ایک ہے، جس میں قتل کو جواز فراہم کرنے کے علاوہ کچھ بھی سامنے نہیں آیا ۔ اس تحقیقات میں کوئی حیران کن بات نہیں ہے بلکہ نتائج پیش گوئی کے عین مطابق ہیں،یہاں تک کہ موجودہ تحقیقات ماضی میں ہونے والی ہزاروں تحقیقات کا اعادہ اور ہوبہو نقل ہے اور اس حوالے سے ہمیں رتی بھر بھی یقین نہیں ہے کہ بھارتی حکومت اس حوالے سے اخلاقی جرات سے کام لے کر معافی مانگے۔ ماضی کی تمام تحقیقات کا خلاصہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ موجودہ حکومت کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک رپورٹ ٹائپ کرنے میں تمام انسانی جذبات کو نظر انداز کیا گیا اور جو اپنے پیاروں کواس واقعے میں کھو چکے ہیں ،ان کے جذبات کو بھی ملحوظِ خاطرنہیں رکھا گیا ہے، عام کشمیری کو اپنی حفاظت کے حوالے سے خود ہی باخبر رہنا ہے، یہ منطق سمجھ سے باہر ہے "اس وقت کی حکومت کو گولیاں چلانے کا حق حاصل ہے اور ماضی یا مستقبل کے کسی بھی متاثرین کو بہتر طور پر اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ غلط وقت پر صحیح جگہ پر نہ پکڑے جائیں۔لہذا ہم بھارتی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ انصاف کا بہانہ کرنا بند کرے اور متاثرہ خاندانوں کو سکون کے ساتھ تعزیت کرنے دے اور ان بدصورت زخموں کو دوبارہ نہ کریدیں جو اس خوفناک رات کو ان پر لگے تھے۔نیشنل کانفرنس نے تحقیقاتی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ عدالتی تحقیقات کے سوا معاملے کے معتبر اور اصل حقائق کو سامنا نہیں لایا جاسکتا۔بیاں میں کہاگیاکہ بھارتی پولیس تحقیقاتی رپورٹ میں کچھ نیا نہیں بلکہ پرانی تحقیقاتی رپورٹوں کی کہانی دہرائی گئی ہے اور حسب توقع وہی مدعی وہی منصف کے مترادف پولیس نے خود کو کلین چٹ دے دی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے روزِ اول سے ہی معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور ہم آج بھی معاملے کی بغیر تاخیر عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ ان معصوم شہریوں کے لواحقین کو انصاف دلایا جاسکے۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے ٹویٹر بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہااگر پولیس ابھی معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے، تو اس حوالے سے ایک بیان کے ساتھ پریس میں جانے کی کیا جلدی تھی؟ عمر عبداللہ نے پولیس کی جانب سے”تعزیری کارروائی ” کے بارے میں کہا کہ رپورٹ پر تنقید کرنی چاہے عبوری ہو یا حتمی کسی بھی شہری کا حق ہے اور یہ پولیس کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو دھمکیاں دینے کی کوشش کرے، اگر پولیس چاہتی ہے کہ لوگ رپورٹ پر یقین کریں تو اسے سچائی بیان کرنی چاہیے۔بھارتی پولیس نے بضابطہ پردھمکی دی ہے کہ اگر بھارت نواز سیاستدانوں نے حیدرپورہ پولیس رپورٹ پر تنقید کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو ان کے خلاف تعزراتی کاروائی کرنے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ بھارتی پولیس کی جانب سے ایک بیاں جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں کو قیاس آرائی پر مبنی بیانات دینے سے گریز کرنا چاہئے ورنہ ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ پولیس بیاں میں کہا گیاکہ ایسے سیاسی رہنما جو ابتدائی رپورٹ کو من گھڑت، پرد ہ پوشی ،آرائشی تحقیقات، کلین چٹ اور پرانی کہانی سے تعبیر کررہے ہیں ان کے خلاف مناسب تعزیری کارروائی کرنے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح کے بیانات قانون کے خلاف ہے اور مناسب قانونی کارروائی کیلئے راہ بھی ہموار کررہے ہیں۔کس قدر دکھ اور افسوسناک پہلو ہے کہ ایک تو کشمیریوں کو مارا جاتا ہے،ان کی میتوں کو بھارتی فوجی اپنے زیر استعمال دور درازقبرستانوں میں دفن کرکے لواحقین کو ان کی تدفین کے بنیادی قانونی حق سے محروم اور پھر انہیں تعزیت بھی نہیں کرنے دی جاتی ہے ،پھر دنیا میں بھارت کی سب سے بڑی نام نہاد اور ڈھکوسلہ جمہوریت کا ڈھونگ بھی رچایا جاتا ہے۔اس ظلم و بربریت پر عالمی برادری کی خاموشی افسوسناک اور حد درجہ بے شرمی ہے۔اب تو بھارت میں تمام مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کو مارنے کی کھلے عام دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔ہریدوار اترا کھنڈ میں ہندو انتہا پسندوںنے مسلمانوں کی نسل کشی کا باضابطہ اعلان بھی کیا ہے اور مودی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی،مسلمانوں کو کھلی جگہوں پر نماز جمعہ کی ادائیگی سے روکا جاتا ہے اور یہ اب روز کا معمول بن چکا ہے۔ہندتوا قوتوں کی ان کاروائیوں نے اپنے اپ کو لبرل یا سکیولر کہلانے والے مسلمانوں کا بھی خون کھولنے لگا ہے،اس سلسلے میں بھارتی ادا کار نصیر الدین شاہ نے ایک مرتبہ پھر پرانے موقف کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کرنے والے بھارت میں خانہ جنگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ہم میں سے 20 کروڑ لوگ اتنی آسانی سے فنا ہونے والے نہیں ہیں۔ اگر نسل کشی کی کوشش کی گئی تو ہم مزاحمت کرتے ہوئے لڑیں گے۔نصیر الدین شاہ نے ان خیالات کا اظہار مشہور بھارتی صحافی کرن تھاپر کو ایک انٹرویو کے دوران کیا۔یاد رہے کہ تین برس قبل بھی نصیرالدین شاہ نے بھارت میں بڑھتی مذہبی منافرت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ زہر پورے بھارت میں پھیل چکا ہے اور اس کے جلد قابو میں آنے کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ موجودہ ماحول سے خوف نہ کھائیں بلکہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔دی وائر کے صحافی کرن تھاپر کے ساتھ نئے انٹرویو میں نصیر الدین شاہ نے ہریدوار اترا کھنڈمیں ہندوں کے تین روزہ کنونشن میں جو مسلمان مخالف بیانات دیے گئے اس کے بارے میں تفصیل سے بات کی ہے۔مذکورہ کنونشن سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں نصیر الدین شاہ نے کہاکہ اگر بی جے پی کی حمایت یافتہ ہندو انتہا پسندوں کو پتا ہے کہ وہ کیا بات کر رہے ہیں، تو حیران ہوں۔ کیونکہ ایسے لوگ خانہ جنگی کی اپیل کر رہے ہیں۔ ہم میں سے 20 کروڑ مسلمان اتنی آسانی سے فنا ہونے والے نہیں ہیں۔ ہم 20 کروڑ لوگ لڑیں گے۔ ہم پر تنقید کرنے والوں کو بتا دوں ہم یہاں پیدا ہوئے۔ ہمارے خاندان اور کئی نسلیں یہیں رہیں اور اسی مٹی میں مل گئیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسی مہم شروع ہوئی تو سخت مزاحمت ہوگی اور لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑے گا۔ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنایا جا رہا ہے لیکن مسلمان ہار نہیں مانیں گے۔ مسلمانوں کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ہمیں اپنا گھر بچانا ہے، ہمیں اپنے خاندانوںکو بچانا ہے، ہمیں بچوں کو بچانا ہے۔بھارتی اداکار نے مزید کہا کہ بڑھتی مذہنی منافرت پر نریندرا مودی کی خاموشی سے لگتا ہے کہ انہیں حالات کی کوئی پروا نہیں ہے۔مسلمانوں پر زمین تنگ کرنے کی کوششیں سرکاری سطح پر ہو رہی ہیں، یہ مسلمانوں کو غیر محفوظ محسوس کرانے کی منظم کوشش ہے۔ بی جے پی کے لیے علیحدگی پسندی پالیسی بن چکی ہے۔ میں جاننے کے لیے متجسس تھا کہ جنھوں نے مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکسایا، ان کا کیا ہو گا لیکن سچ تو یہ ہے کہ کچھ نہیں ہوا۔نصیر الدین شاہ نے کہا کہ وہ مودی حکومت کے رویے پر حیران نہیں ہیں۔ یہ مایوس کن ہے لیکن کم و بیش یہ وہی ہے جس کی ہمیں توقع تھی لیکن جس طرح سے چیزیں سامنے آ رہی ہیں وہ ہمارے خدشات سے بھی بدتر ہیں۔ ایسی اشتعال انگیزیوں پر بھارتی وزیر اعظم خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔بھارتی مسلمانوں کو اب جاگنا ہوگا،ان کیلئے ابھی نہیں تو کبھی نہیں کی صورتحال آن پہنچی ہے،فیصلہ اب انہوں نے کرنا ہے کہ لڑ کر مرنا ہے یا ہندوں کے ہاتھوں آسان شکار بنیں گے۔