مقبوضہ جموں و کشمیر

” کشمیر پریس کلب “کی بندش کا مقصد جموں وکشمیر میں آزاد پریس کے کسی بھی نشان کو مٹانا ہے، واشنگٹن پوسٹ

واشنگٹن 23 جنوری (کے ایم ایس)معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں ” کشمیر پریس کلب“ پر پابندی کے اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے بھارتی حکومت کی طرف سے علاقے میں پریس کی آزادی کے کسی بھی نشان کو مٹانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اخبار نے لکھا کہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو بھارتی وزارت داخلہ کی اجازت کے بغیر کشمیر جانے کی اجازت نہیں ہے اور یہ اجازت کبھی کبھار ہی دی جاتی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے مقامی لوگوں کے حوالے سے کہا کہ بھارتی فورسز ماورائے عدالت قتل کو چھپانے کے لیے شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔اخبار نے اپنی رپورٹ کا آغاز ان الفاظ سے کیا ”بھارت کے زیر انتظام کشمیر ایک ایسا خطہ جو زیادہ تر غیر ملکی رپورٹرز کے لیے محدود ہے جہاں مواصلاتی بلیک آو¿ٹ اور کرفیو کا سامنا ہے، مشکل حالات میں کام کرنے والے مقامی صحافی معلومات کے چند معتبر ذرائع میں سے ایک ہیں لیکن اس ہفتے بھارتی انتظامیہ نے کشمیر پریس کلب کو بند کر دیااور یہ بندش کشمیر میں آزادی صحافت کی مایوس کن حالت کی نشاندہی کرتی ہے ،یہ خطے میں صحافیوں کی آواز کو دبانے کے مترادف ہے“۔
صحافی اور کلب کی گورننگ باڈی کے جنرل سیکرٹری اشفاق تانتری نے حکومتی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے بندش کو آزاد میڈیا کے خلاف بدترین قسم کا ریاستی جبرقرار دیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ مقامی میڈیا پر کریک ڈاو¿ن خطے میں تازہ ترین پابندی ہے جہاں اگست 2019 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے خود مختاری اور ریاستی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد سے کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ بھارت میں بہت سے خبر رساں اداروں کو حکومت کی تنقید کا سامنا ہے،جنہیں حکام کے دباو¿ کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن کشمیر میں صحافی کہیں زیادہ محدود ماحول میں کام کرتے ہیں اور انہیں پولیس اور فورسز کی طرف سے دھمکیوں اور ہراساں کیے جانے کی کارروائیوں کا سامنا ہے ، کئی صحافیوں کو کالے قوانین کے تحت تفتیش کا سامنا ہے۔خطے کے سب سے پرانے روزناموں میں سے ایک کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا بھسین کا کہنا ہے کہ زاد پریس کے کسی بھی نشان کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button