بھارت

بھارت:ہریانہ میں ہندوتوا رہنمائوں کا مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا مطالبہ

نئی دہلی 05جولائی (کے ایم ایس)بھارتی ریاست ہریانہ کے ضلع گڑگائوں کے قصبے مانیسر میں بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد جیسے ہندوتوا گروپوں کے ارکان نے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مانیسر کے ایک مندر میں منعقدہ پنچایت میں نہ صرف مانیسر بلکہ ریاست کے کاسان، دھروہرہ اور گڑگائوں کے علاقوں سے بھی تقریبا 200لوگوں نے شرکت کی۔ پنچایت نے لوگوں سے کہا کہ اگر اودے پور میں ایک درزی اور امراوتی میں ایک کیمسٹ کے قتل جیسے واقعات دوبارہ پیش آئے تووہ ہتھیار اٹھا لیں۔ہندوتوا گروپوں اور حامیوں کی طرف سے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی یہ پہلی کال نہیں ہے۔ بھارتی میڈیا نے اس سے قبل بھارت بھر میں ہندوتوا گروپوں کی طرف سے مسلمانوں کی ملکیتی دکانوں پر حملوں کی خبریں دی ہیںجنہوں نے مسلمانوں پر الزام لگایا کہ وہ مہندی جہاد،چوڑی جہاد،منشیات جہاد،اقتصادی جہاداور یہاں تک کہ جوس جہاد سے روزی روٹی کمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رواں سال کے شروع میں کرناٹک حکومت کی طرف سے ریاستی اسمبلی میں اس اعلان کے بعد کہ غیر ہندوئوں کو مندروں کے احاطے میں اور اس کے آس پاس کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہے، ہندوتوا گروپوں نے مسلمان تاجروں کو مندروں کے علاقوں سے بے دخل کیا۔ ہندوتوا کے کارکنوں نے مسلمانوں کی دکانوں اور ان کے سامان کو بھی تباہ کر دیا۔کرناٹک کی طرح ہریانہ پنچایت کے مقررین نے کہا کہ علاقے میں مسلمانوں کی طرف سے چلائی جانے والی جوس کی دکانیں اور سیلون ہندو نام اور ہندو دیوتائوں کے ناموں پر ہیںجوایک سازش کا حصہ ہے۔پنچایت کے شرکا ء نے ڈپٹی کمشنر کے نام ایک یادداشت بھی پیش کی جس میں”غیر قانونی تارکین وطن”کو نکالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔یہ اصطلاح بھارت میںمسلمانوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ مقررین نے کہا کہ معاشی بائیکاٹ ہی واحد حل ہے اور دعویٰ کیا کہ مسلمانوں کی دکانیں کاروبار کے لیے نہیں بلکہ یہ جہاد یا مذہبی جنگ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو مسلمانوں کو کوئی چیزکرائے پر دینے، مسلمانوں کی دکان سے پھل خریدنے یا مسلمانوں کی ملکیت والے سیلون میں بال کٹوانے سے منع کیا۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button