مضامین

افضل گورو، مظلوم شہید

262982243_524360632211915_3833026627874348222_nافضل گورو، مظلوم شہید (ارشد میر)
9فروری کشمیر کی تاریخ میں ایک اور المناک دن کے طور پر درج ہے۔ 2013 میں اسی روز بھارتی استعمار نے ایک بے گناہ کشمیری محمد افضل گورو کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے ایک جھوٹے اور من گھڑت کیس میں ملوث کرکے پھانسی پر چڑھایا اور یوں کشمیری قوم کو ایک اور گہرا زخم دیا جو کبھی مد مل نہیں ہوسکتا۔ آج افضل کی شہادتِ مظلومانہ کو 10 سال مکمل ہورہے ہیں۔ اس موقع پر پورے مقبوضہ علاقہ میں ہڑتال کی جارہی ہے۔ہڑتال کی کال کل جماعتی حریت کانفرنس دی ہے اور اسکا مقصد افضل سمیت اپنے شہیدوں کو یاد، بھارت سے نفرت اورآزادی کے مشن پر کاربند رہنے کے عزم کا اعادہ کرنا ہے۔

مقبوضہ علاقہ کے کئی حصوں میں پوسٹرز چسپاں کیے گئے ہیں جن کے ذریعے کشمیریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ممتا زآزاد ی پسند رہنماﺅں محمد افضل گورو اور محمد مقبول بٹ کے ایام شہادت، 9 اور 11 فروری کو مکمل ہڑتال کریں۔ محمد مقبول بٹ اور محمد افضل گورو کی تصاویر والے پوسٹرز سماجی روابط کی سائٹس پر بھی اپ لوڈ کیے گئے ہیں۔
پوسٹرز میں کشمیریوں پر زور دیا گیا کہ وہ نریندر مودی کی فسطائی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی مذموم کوششوں کو ناکام بنا دیں۔بھارت نے محمد افضل گورو کو 9 فروری 2013 جبکہ محمد مقبول بٹ کو 11فروری 1984 میں نئی دلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں تختہ دار پر لٹکایا تھا۔ ان کی میتیں ازروئے قانون اور انسانی اوراخلاقی ضابطوں کےتحت انکے ورثاء کی اجازت و شرکت کے بغیر ہی جیل احاطے میں دفنا دی گئیں۔
افضل گورو کی ولادت مقبوضہ وادی کے شمالی ضلع بارہمولہ میں ہوئی۔وہ بڑے ہونہار طالبعلم تھے۔ 1986ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد سوپور میں اعلیٰ ثانوی تعلیم حاصل کی۔انٹرمیڈیٹ میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوئے۔ ایم بی بی ایس نصاب کا پہلا سال مکمل کر لیا تھا کہ مقابلے کے امتحان کی تیاری کرنے لگے۔اسی دوران کشمیر کی تحریک آزادی نے ایک نئی اور تاریخساز کروٹ لی۔ افضل کی ہی جنریشن نے بھارت کے خلاف بندوق اٹھالی۔ افضل نے بھی اپنا شاندار کیرئر چھوڑ کر اسمیں شمولیت اختیار کی۔ کچھ عرصہ بعد وہ گرفتار ہوئے اور اسارت کاٹنے کے بعد پرامن زندگی گذارنے لگے۔ اکثر اوقات کاروبار کے سلسلہ میں دہلی جایا کرتے تھے۔ تحریک آزادی عروج پر تھی۔ بھارت اسے دبانے کے لئے ہر اور بدترین حربہ استعمال کررہاتھا مگر کشمیریوں کے ناقابل شکست جذبوں کے آگے اسکی ایک بھی نہیں چل رہی تھی۔کشمیر کے سوال سے بچنے، وہاں کے حالات اور اپنے جرائم چھپانے کی غرض سے وہ ابتداء ہی سے اس تحریک کو دہشت گردی اور مذہبی انتہاء پسندی کا رنگ دے رہا اور پاکستان کے خلاف بھونڈا پروپیگنڈہ کررہا تھا۔ اس پروپیگنڈہ کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے اس نے الفاران نامی ایک جعلی جہادی تنظیم کے ذریعہ 4 مغربی سیاحوں کو اغواء اور ان میں سےتین کو قتل کیا۔ اس ڈرامہ کو دانستہ طور پر بہت طول دیا گیا تاکہ یہ مغربی میڈیا میں زیر بحث رہے۔ دو برطانوی صحافیوں Edrain Levy اورCathy Scot Clark نے اپنی کتابMEADOW Kashmir 1995- Where The Terror Began میں لکھا کہ کشمیر پولیس کے ایک انسپکٹر کو قتل کیا گیا تھا کیونکہ اس نے تحقیقات کے دوران مغوی سیاحوں کو بھارتی فوج اور RAW کے قبضہ میں دیکھا تھا۔ تاہم ان گھناؤنی سازشوں کے باوجود کشمیریوں کو شکست دینے میں بھارت پھر بھی کامیابی نہیں ملی۔ اس دوران عسکریت نے مزید شدت پکڑلی اور برسوں سے حالت جنگ میں رہنے والی بھارتی فوج کو اور زیادہ نفسیاتی طور پر پست کیا۔ المیہ کہ اسی دوران 11/9 کا واقع پیش آیا اور بھارت نے اسکا فائدہ اٹھانے کے لئے اپنے پروپیگندہ مشینیں اورگھناؤنی سازشوں کے تانے بانے تیز کردئے۔اس نے اپنی پارلیمنٹ پر حملہ کا ایک خوفناک منصوبہ تیار کیا تاکہ امریکی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ نامی عالمی مہم کا نشانہ تحریک آزادی کشمیر اور پاکستان بھی بنیں اور ساتھ ہی اس عالمی ماحول کا فائدہ اٹھاکر پاکستان کے خلاف کوئی فوجی مہم جوئی بھی کی جائے۔ بھارتی حکومت اور پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ اگر پاکستان کے خلاف محدود علاقہ میں فوجی کاروائی کی جائے تو کامیابی کی صورت میں اسے کشمیری عوام کی حمایت سے کافی حد تک دستبردار کرایا جاسکتا ہے اور یوں کشمیر میں مزاحمت کا بھی زور ٹوٹ جائے گا۔چنانچہ13 دسمبر 2001 کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوتا ہے جس میں ایک مالی سمیت تین سیکورٹی اہلکار ہلاک اور 9 دیگر زخمی ہوجاتے ہیں۔ جوابی کاروائی میں پانچ نامعلوم حملہ آوروں کو بھی موقع پہ ماردیا جاتا ہے۔اس شیطانی سازش کو عملانےکے لئے کشمیر پولیس کے ایک سینئر افسر دویند سنگھ کو استعمال کیا گیا جس نےمحمد افضل گورو اوربعض دیگر محبوس کشمیریوں کوجھانسہ دیکر پھنسایا۔ حسب منصوبہ، حملے کے ساتھ ہی بھارتی حکومت، ایجنسیز اور گودی میڈیا نے کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا اور کہا کہ یہ حملہ جیش محمد نامی تنظیم کے ذریعہ کرایا گیا۔کہانی میں رنگ ڈالنے کی خاطر بعد ازاں 15 دسمبر 2001 کو 4 کشمیری، افضل گورو، دہلی یونیورسٹی کے ایک لیکچرر ایس اے آر گیلانی، شوکت گورو اور ان کی اہلیہ افشاں گورو کو گرفتار کرکے ان پر حملہ آوروں کی اعانت کرنے کا جھوٹا الزام دھرا گیا۔ 4 جون2002 کو گرفتار شدگان پر فرد جرم عائد کی گئی۔افضل گورو کو حملے کا ماسٹر مائند قرار دیکر 18 دسمبر 2002 کو دلی کی ایک عدالت کے ذریعہ انھیں، پروفیسر گیلانی اور شوکت گورو کو سزائے موت سنوائی گئی جبکہ عدالت نے افضل گورو کی سزاء پر ایک سال کے اندر عمل کرنے کی بھی ہدایت کی۔29 اکتوبر 2003 کو دلی ہائی کورٹ نے ذیلی عدالت کے فیصلے کی توثیق کردی تاہم پروفیسر عبدالرحمٰن گیلانی کو رہا کرنے کا حکم بھی صادر کیا۔4 اگست 2005کو بھارتی سپریم کورٹ نے افضل گورو کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو صحیح قرار دیا لیکن شوکت گورو کی موت کی سزا کم کرکے دس سال قید میں تبدیل کردی۔20 اکتوبر 2006 کو افضل گورو کی سزا پر عمل ہونا تھا اور تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں مگر اسی دوران ان کی اہلیہ تبسم گورونے اس وقت کے صدر ہند پرناب مکھرجی سے رحم کی اپیل کی جس کی وجہ سے سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا۔12جنوری 2007 کوسپریم کورٹ نے افضل گورو کی نظرثانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسکی کوئی وجہ نہیں ہے۔30 دسمبر 2010 کو شوکت حسین گورو کو گناہ ناکردہ کی 10 سالہ سزا پوری ہونے کے بعد جیل سے رہا کیا گیا۔3 فروری 2013 کو بھارتی صدر نے رحم کی اپیل مسترد کردی اور 8 روز بعد یعنی 9 فروری کو افضل گورو کو تختہ دار پر چڑھایا گیا۔
ٹھوس شواہد نہ ہونے کے باوجود افضل گورو کو 13 برس جیل میں سڑانے کے بعد پھانسی کی سزاء سنائی گئی۔ ظاہر ہے کہ بھارتی عوام کو کچھ تو دکھانا تھا؟ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اعتراف کیا کہ افضل کے خلاف کوئی ٹھوس اور واقعاتی شہادت نہیں ہے مگر اسکے باوجود انکی کی پھانسی کا پروانہ یہ کہہ کر جاری کیا گیا کہ اس سے بھارت کے اجتماعی ضمیر کو تسکین ملے گی۔ انصاف کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی ایسی تاویل نہیں گھڑی گئی۔
اس سے ٹھیک 29 سال پہلے اسی تہاڑ جیل میں کشمیریوں کے ایک عظیم لیڈر محمد مقبول بٹ کو بھی یہ سمجھ کرتختہ دار پر لٹکایا گیا تھا کہ اس شیر کی دھاڑ یہیں ختم ہوگی۔ مگر صرف 6 برس بعد ہی کشمیر کے ایک ایک نوجوان نے مقبول بٹ کا ایک نیا روپ دھار کر مزاحمت کی وہ تحریک برپا کی جسے بھارت 34 برسوں سے 10 لاکھ فوج، بے پناہ وسائل اور چانکیائی حربوں کے بے مہار استعمال کے باوجود دبا نہ سکا۔
افضل گورو کو پھانسی کی سزا دینے کے بعد کشمیری رہنماؤں میرواعظ عمر فارق اور سید علی گیلانی نے چار روزہ ہڑتال کی کال دی۔ مقبوضہ و آزاد کشمیر، پاکستان اور دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ آزاد کشمیر حکومت نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ مقبوضہ علاقہ میں مظاہروں کو روکنے کے لئے بھارتی غاصبین نے سری نگر سمیت کئی شہروں میں کرفیو نافذاورانٹرنیٹ و کیبل سروس معطل کر دی تھی۔تاہم ان پابندیوں کے باوجود لوگوں نے احتجاجی مظاہرے جاری رکھے اور بھارتی حکمرانوں کے پتلے اور بھارتی پرچم نذر آتش کیے۔ قابض فورسز نے نہتے کشمیریوں پر بہیمانہ تشدد کیا، گولیاں اور پیلٹ چلائےجسکے نتیجے میں متعدد افراد شہید اور سیکڑوں زخمی ہو گئے۔ ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان اور جاوید احمد میر سمیت کئی حریت رہنماؤں کو گرفتار جبکہ سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کو خانہ نظربند کیا گیا۔ افضل کے آبائی قصبے سوپور کو بھارتی قابضین نے پہلے ہی سیل اور اہل علاقہ کو عملا یرغمال بنایا ہوا تھا تاہم اسکے باوجود علاقہ میں مظاہرین اور قابض فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں اور پولیس کی فائرنگ سے چار افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے دو کی شہادت واقع ہوئی۔
حسب منصوبہ اس نام نہاد حملہ کو بھارت نے بہانہ بناکر پاکستان کی سرحد پر دس لاکھ فوج چڑھادی ۔ پاکستان نے بھی اپنے دفاع اور بھارت کے دھونس میں نہ انے کے لئے مطلوبہ تعداد میں فوج سرحد پر تعینات کردی۔ بھارت کی اس جارحانہ حرکت کے نتیجہ میں خطے میں اس قدر کشیدگی پیدا ہوئی کہ امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کو مداخلت کرنا پڑی جسکے کئی ماہ بعد دونوں ملکوں نے اپنی افواج واپس بلالیں۔
افضل گورو کے جرم بے گناہی کی کئی بھارتی صحافیوں، انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کے کارکنوں اور دیگر نے بھی گوہی دی۔ اور تو اور تہاڑ جیل کا ایک عہدیدار سنیل گپتا اپنے ضمیر پر بھارت کے اس ریاستی جرم کے بوجھ تلے بھارتی میڈیا کو ایک انٹرویو کے دوران افضل کا ذکر کرتے ہوئے زاروقطار رودیا۔
بھارتی سپریم کورٹ کی سرکردہ وکیل کامنی جیسوال کا کہنا ہے کہ افضل گورو کی رحم کی اپیل سے متعلق ایک عرضی پر سپریم کورٹ میں سماعت چل رہی تھی ایسے میں پھانسی دینا قانونی طور پر بھی درست نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ یہ گھناؤنا جرم صرف اور صرف سیاسی فائدے کے لیے کیا گیا۔ واضع رہے کہ کانگریس حکومت کشمیریوں، اور انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے دباؤ آنے کے خدشہ کے تحت افضل گورو کی پھانسی کو برسوں سے ٹال رہی تھی۔ مگر جب بی جے نے آمدہ انتخابات میں افضل کی پھانسی کے معاملہ کو انتخابی مہم کا ایک خاص نکتہ بنانے کا اعلان کیا تو کانگریس نے سیاسی نقصان سے بچنے کے لئے فورا ایوان صدر میں ایک عرصہ سے زیر التواء افضل کی رحم کی اپیل مسترد کرادی اور پھر صرف 8 روز بعد ہی انھیں تختہ دار پر بھی چڑھادیا۔یوں افضل نہ صرف پاکستان کے خلاف بھارت کی قومی سازش بلکہ اسکی غلیظ داخلی سیاست کی بھی بھینٹ چڑھ گئے۔
بھارتیوں نے سچ پوچھئے تو ایک عام اور پرامن کشمیری کو اپنی استعماریت کی بھینٹ چڑھا کر وہ ہیرو اور وہ ستارہ بنادیا جو کشمیرکے آسمان پر ہمیشہ چمکتا رہے گا اور اپنی مظلوم قوم کے نظریہ کو مضبوطی اور جذبہ عزم کو حرارت فراہم کرکے اسے تاحصول آزادی بھارتی سامراج کے خلاف مزاحمت پر آمادہ رکھے گا۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button