جموں و کشمیر جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے پریس کونسل آف انڈیاکو کشمیری صحافیوں کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا
سرینگر 15 اکتوبر (کے ایم ایس) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں جموں و کشمیر جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے ایک وفد نے جمعہ کو پریس کونسل آف انڈیا (پی سی آئی) کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی سے ملاقات کی اور اسے علاقے میں گزشتہ دوسال سے صحافیوں کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق صحافی تنظیم نے پی سی آئی کے نام لکھے گئے ایک خط میں کشمیر میں صحافیوں کو درپیش مسائل کو اجاگرکیا اور امید ظاہرکی کہ مکمل چھان بین کرکے ان مسائل کو فوری طور پر حل کیا جائے گا۔ جموں و کشمیرجرنلسٹس ایسوسی ایشن نے کہا کہ سینکڑوں صحافی ذرائع ابلاغ کے مقامی اداروںمیں کام کر رہے ہیں جن میں سے کئی کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے اور تقریبا ًتمام صحافیوں کو تنخواہوں میں کمی کا سامنا ہے۔ ایسوسی ایشن نے کہاکہ ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ پریس کونسل آف انڈیا دفعہ 370 اور 35-A کی منسوخی کے بعد کشمیر میں صحافت کی حالت زار کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کے لیے کشمیر کا دورہ کررہی ہے۔ کشمیری صحافیوں نے گزشتہ دو سال میں بہت سی تکالیف برداشت کیں اوروہ انتہائی معاندانہ ماحول میں کام کر رہے ہیں۔ایسوسی ایشن نے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد ذرائع ابلاغ پرعائد پابندیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ اگست/ستمبر 2019 میں طویل ترین انٹرنیٹ بندش سے صحافیوں کے لیے بے پناہ مسائل پیدا ہوئے۔ ایسوسی ایشن نے کہا کہ صحافیوں نے اب تک کا بدترین بحران برداشت کیا ہے کیونکہ کئی صحافیوں کو ڈیوٹی کے دوران مارا پیٹا گیا۔”دی پرنٹ “کے اذان جاوید اور”نیوز کلک“ کے انیس زرگر کو 2019 میں جامع مسجد کے قریب پولیس نے مارا پیٹا ۔ بی بی سی کے ایک صحافی شفاعت فاروق کو رواں سال مارچ میں جامع مسجد کے باہر بے رحمی سے مارا گیا۔ سینئرفری لانسر اور ”دی کشمیر والا“ کے ایڈیٹر فہد شاہ برسوں سے تھانوں میں حاضری دے رہے ہیں کیونکہ انہیں اکثر طلب کیا جاتا ہے۔پولیس ، پیراملٹری فورسز اور این آئی اے کے اہلکاروں نے ستمبر میں چار صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارے اوران کے فون ، کام کا سامان اور پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے اور پولیس اسٹیشن میں پوچھ گچھ کی گئی۔ ان میں سے ایک اب بالکل روزگار ہے کیونکہ اس کے مالک نے چھاپے کے فورا بعد اسے برطرف کر دیا۔ جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے کہاکہ ایک فری لانس ویڈیو صحافی مختار ظہور کو 12 اکتوبر کی درمیانی شب ان کے گھر سے اٹھایا گیا اور رام منشی باغ پولیس اسٹیشن میں نظربند کیاگیا ۔ اسے اگلے دن چھوڑ دیا گیاکیونکہ بقول پولیس کے شبہات دور ہو گئے۔ ایک ممتاز ٹی وی پینلسٹ ماجد حیدری کو فوجی کیمپ میں طلب کیاگیا اور گھنٹوں پوچھ گچھ کی گئی۔