انسانی حقوق کے ممتاز کشمیری علمبردار کی غیر قانونی نظربندی کو 3سال مکمل
انسانی حقوق کی تنظیموں کافوری رہائی کامطالبہ
سرینگر :
کل 22 نومبر کو انسانی حقوق کے ممتاز کشمیری علمبردار خرم پرویز کی کالے قانون کے تحت غیر قانونی نظربندی کو تین سال مکمل ہورہے ہیں ۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق خرم پرویز کو 22نومبر 2021کو بھارت کے بدنام زمانہ تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے بھارتی حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے یااس کی کوشش یاسازش کرنے سمیت متعدد الزامات کے تحت گرفتار کیا تھا۔خرم پرویز کومقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقو ق کی پامالیوں کو دستاویزی شکل دینے پر انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے ایک دانستہ کارروائی ہے ۔خرم پرویز کو مسلسل غیر قانونی نظربندی سول سوسائٹی اور اختلاف رائے پر ایک حملہ ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں بشمول ایشین فورم فار ہیومن رائٹس اینڈ ڈویلپمنٹ ، کشمیر لاء اینڈ جسٹس پروجیکٹ ، انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس ، شہریوں کی شرکت کیلئے عالمی اتحاد،جبری گمشدگیوں کے خلاف ایشین فیڈریشن اور ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچرنے خرم پرویز کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ دوہرایا ہے۔ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ خرم پرویز طویل عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متاثرین کیلئے انصاف اور ان جرائم میں ملوث فوجی اہلکاروں کے حتساب کیلئے آواز بلند کرتے رہے ہیں ۔خرم پرویز جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے کوآرڈینیٹر، جبری گمشدگیوں کے خلاف ایشین فیڈریشن کے چیئرپرسن اورانٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں۔ انسانی حقوق کے احترام کے بارے میں ان کے اصولی موقف کی وجہ سے انہیں بین الاقوامی سطح پرشہرت حاصل ہے ۔ انہیں گزشتہ سال مارٹن اینالز ایوارڈ اور 2006میں ریبوک ہیومن رائٹس ایوارڈسے بھی نوازا گیاتھا۔ تاہم انہیں بھارتی حکام کی جانب سے مسلسل انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہاہے۔انسانی حقو ق کی تنظیموں کاکہناتھا کہ مودی حکومت نے2016میں خرم پرویز کو جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں شرکت کی اجازت نہیں دی تھی اور اسکے بعد انہیں کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 76 دن تک قید رکھا گیا۔ کشمیر ہائی کورٹ نے بعدازاں ان کی نظربندی کو غیر قانونی قرار ددیاتھا۔ بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے کولیشن آف سول سوسائٹی کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی مواصلاتی ناکہ بندی کے انسانی حقوق پر پڑنے والے اثرات کے بارے میںایک رپورٹ شائع کرنے چند ماہ بعد اکتوبر 2020میں تنظیم کے دفاتر، خرم پرویز کی رہائش گاہ، اور دیگر مقامات پر چھاپے مارے تھے ۔22 نومبر 2021کوخرم پرویز کے خلاف بھارتی جبر کی مہم اس وقت شدت اختیار کر گئی جب انہیں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون کے تحت انہیں دوبارہ گرفتار کرلیاگیا۔ خرم پرویز مسلسل نئی دلی کی روہنی جیل میں قید ہیں اورنہ صرف ان کی ضمانت کی درخواست کو مسلسل مسترد کیاجارہاہے بلکہ مارچ 2023میں ان کے خلاف مزید جھوٹے الزامات عائد کئے گئے ہیں ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک اور کشمیری صحافی عرفان معراج کی بھی مسلسل غیر قانونی نظربندی کی مذمت کی ہے ۔انہوں نے بھارتی حکومت سے خرم پرویزاورعرفان معراج کی فوری اور غیر مشروط رہائی کامطالبہ کیا۔