مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا سلسلہ پچھلی پون صدی سے مسلسل جاری ہے۔ قانون تقسیم ہند میں ہندوستان کی 562ریاستوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ اپنی اکثریتی مذہبی آبادی کی بنیاد پر بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ اسی قانون کی بنیاد پر بھارت نے حیدرآباد اور جوناگڑھ پر قبضہ جمالیا جن کے حکمران مسلمان لیکن آباد ی کی غالب اکثریت غیر مسلم تھی۔ جب کشمیر کا معاملہ پیش آیا تو بھارت نے غاصبانہ و ظالمانہ قبضہ جمانے کی روایت کشمیر میں بھی برقرار رکھی۔ حالانکہ یہاں معاملہ دیگر ریاستوں کے بالکل الٹ تھا۔ یہاں کا حکمران غیرمسلم اور رعایا کی اسی فیصد کے لگ بھگ آبادی مسلمان تھی۔ نیز یہ ریاست جغرافیائی طور پر پاکستان کے بالکل ساتھ منسلک تھی اور قدرتی طور پر ریاست کے تمام راستوں یہاں تک کہ دریاؤں کا رخ بھی پاکستان ہی کی جانب تھا۔ قدرتی طور پر یہ ریاست ان ہی علاقوں کی طرف جھکاؤ رکھتی تھی، جن پر بعدازاں پاکستان قائم ہوا۔ اس قانون کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ایسی عالمگیرانسانی قضیے کو جنم دیا گیا جس نے پون صدی میں لاکھوں جانوں کا خون نگل لیا ہے۔ نسل درنسل انسانی جانوں کی قربانیوں، عزتوں وعصمتوں کی پامالیوں اور اخلاقی ومعاشرتی اقدار کو روندے جانے کے اندوہناک نوحوں نے انسانیت کو شرمادیا ہے۔ آج کے مہذب زمانے میں یہ خیال تک کرنا بھی ناممکن ہے کہ اقوام عالم کی عین ناک تلے شیرخوار بچوں سے لے کر بوڑھے افراد تک کو ماورائے عدالت گولیوں سے چھلنی کرنے کی روایت ابھی تک قائم ہے۔
اس وقت کشمیر میں مجموعی طور پر دس لاکھ بھارتی فوج تعینات ہے جو انسانی حقوق کی زبردست پامالیوں میں ملوث ہے۔ آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ 1958ء کے تحت سیکورٹی فورسز کو مکمل اختیارحاصل ہے کہ وہ مظاہرین کو کچلنے اور تحریک آزادی کو دبانے کیلئے ہر وسیلہ اور اقدام بروئے کار لاسکتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے خواہ وہ انسانی حقوق کی جس قدر بڑے پیمانے پر بھی خلاف ورزی کریں، اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ یہ ایکٹ مقبوضہ کشمیر میں 1990ء میں نافذ کیا گیاجب کشمیریوں کی مسلح تحریک عروج پر پہنچ چکی تھی اور مرکزی سرکار کے پاس انہیں کچلنے کیلئے کوئی حربہ نہ تھا۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں، اقوام متحدہ وغیرہ نے اس ایکٹ کے نفاذ پر زبردست تنقید کی تھی کیونکہ یہ ایکٹ براہ راست فوجی افسران کو یہ اختیار فراہم کرتا تھا کہ وہ اپنے مشن کی کامیابی اور مرکزی سرکاری کے احکامات پر عمل درآمد کیلئے ہر قسم کے حربے اختیار کرسکتے ہیں اور اس ضمن میں انہیں ہر قسم کی قانونی کارروائی سے تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ اس قانون کا سب سے خطرناک استعمال 23فروری 1991ء کو کیا گیا جب کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے دو دگاؤں کنن اور پوش پورہ میں ایک رات سرچ آپریشن کے دوران فوج نے سو سے زائد خواتین کو زیادتی کانشانہ بنایاجو مختلف عمر کی تھیں۔ ہیومن رائٹس واچ اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کے مطابق یہ تعداد 150کے لگ بھگ تھی۔ ان تنظیموں کے دباؤ پردہلی سرکار نے اس واقعہ کی اگرچہ تفتیش کی لیکن بعد میں اِسے بے بنیاد قراردے کر واقعہ میں ملوث فوجیوں کو بے گناہ قرار دے دیا۔
درحقیقت پچھلے چھتربرس سے مقبوضہ کشمیر کے اندر بھارتی فوج انسانی حقوق کی زبردست خلاف ورزیوں میں ملوث ہے اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کے ان واقعات کو رپورٹ بھی کیا ہے لیکن اس کے باوجود بھارت نے ہمیشہ ڈھٹائی اختیار کیے رکھی رہی ہے۔ ہر واقعہ کے بعد اُس کا جواب یہی ہوتا رہاہے کہ یہ محض من گھڑت قصہ یا پراپیگنڈہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا موقف اختیار کرتے ہوئے بھارت انسانی حقوق کے علم بردار عالمی اداروں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ وغیرہ کو مقبوضہ کشمیر میں جانے اور وہاں کے حالات کا بغور مشاہدہ کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔
اگرچہ پانچ اگست 2019سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور لاک ڈاؤن کی آڑ میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی جاری ہے۔ انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدترسلوک روارکھا جارہاہے لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ کشمیری صرف اب کرفیو اور لاک ڈاؤن کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ان کا مطالبہ اس سے بھی آگے کا ہے اور وہ ہے بھارت سے مکمل آزادی۔ کرفیو، لاک ڈاؤن، ظلم وجبر اور تشدد جیسے حربے وہ ہمیشہ سے سہتے چلے آئے ہیں۔ ایسے اقدامات انہیں خوفزدہ کرتے ہوئے اپنے مطالبے اور مشن سے دست بردار ہونے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ ایسا ہوتا تو بھارت کو کشمیر میں کرفیو نافذ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
1989سے تا حال97000 سے زائدکشمیری شہید، 168,939سے زائدگرفتار،22,968خواتین بیوہ اور1,07,947سے زائدبچے یتیم ہو چکے ہیں۔یہ چشم کشا حقائق دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں لیکن افسوس کہ مہذب دنیا محکوم کشمیریوں پر بھارت کی جانب سے کالے قوانین کی آڑ میں انسانیت سوز مظالم پر بھارت کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کررہی۔ برطانیہ میں موجود کشمیری کمیونٹی اپنی مد د آپ کے تحت ہاؤس آف لارڈز میں آوازبلند رکھے ہوئے ہیں۔ اراکین پارلیمنٹ کو بھارتی مظالم کی حقائق پر مبنی چشم کشا رپورٹیں دکھا تے ہوئے انھیں پون صدی سے جاری اس قضیے کو حل کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرنے کے لیے راغب کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ بہرحال عالمی برادری کا یہ اولین فرض ہے وہ اس مسئلے کے حل کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالے۔ مسئلہ کشمیر ایک دھکتا ہوا آتش فشاں ہے۔ جو پھٹ گیا تو صرف بھارت ہی نہیں پورے جنوری ایشیا کا امن تہ وبالا ہوجائے گا۔