مقبوضہ جموں و کشمیر

تنازعہ کشمیر سے متعلق حکمت عملی پر نظرثانی کی ضرورت ہے: مقررین ویبنار

اسلام آباد 15 فروری (کے ایم ایس) کشمیرکے بارے میں ایک ویبینار کے مقررین نے تنازعہ کشمیر اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کو اجاگر کرنے کے لئے موجودہ حکمت عملی پرنظرثانی کرنے کی ضرورت پرزوردیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق’ ’مسئلہ کشمیر کاتاریخی، انسانی اور سیاسی پہلو“کے عنوان سے ویبنار کا انعقاد ایک تھنک ٹینک ”سٹریٹجک وژن انسٹی ٹیوٹ “(SVI) نے کیاتھا۔ویبنار کے شرکاءنے تنازعے کے مختلف پہلوو¿ں پر غور کیا اورمسئلے کو زیادہ مو¿ثر طریقے سے اجاگر کرنے کے لیے مختلف تجاویز پیش کیں۔ مقررین میں اس بات پر اتفاق رائے تھا کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال اور ابھرتے ہوئے چیلنجز کے پیش نظر کشمیر کاز کو آگے بڑھانے کی حکمت عملی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) مسعود اسلم نے اپنے ابتدائی کلمات میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دنیا کشمیریوں کی حالت زار سے لاتعلق دکھائی دے رہی ہے کیونکہ بھارت کومقبوضہ جموں وکشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کو روکنے پرمجبور کرنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔جنرل اسلم نے کشمیر میں بھارتی جنگی جرائم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مسلمانوں کی مظلومیت کو اجاگر کرنے کے لیے سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا کے استعمال کی تجویز پیش کی۔سابق نگراں وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد لودھی نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان کی حکمت عملی محض ایک رد عمل تھی ۔انہوں نے 05 اگست 2019 کے بھارت کے یکطرفہ اقدامات کی مثال پیش کی جن کوروکنے کے لئے کچھ نہیں کیا گیا جب تک ان پر عمل درآمد نہیں کیا گیا حالانکہ تمام اشارے موجود تھے کہ یہ سب کچھ ہونے والا ہے۔انہوں نے دیگر ممالک کی سول سوسائٹیز سے رابطہ قائم نہ کرنے کی کوتاہی کا ذمہ دارمیڈیا کی ناقص کوششوں کو ٹھہرایا۔ سول سوسائٹی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا اگرچہ غیر ملکی حکومتیں ایسے مسائل کو نظر انداز کرتی ہیں جو ان کے مفادات سے مطابقت نہیں رکھتے لیکن انسانی حقوق کے کارکن ایسی چیزوں کو نوٹ کرتے ہیں۔جنرل لودھی نے مشورہ دیا کہ پاکستان کو کشمیر کے دونوں حصوں میں مردم شماری کے لیے عالمی برادری کے ساتھ لابنگ کرنی چاہیے کیونکہ بی جے پی مقبوضہ جموں وکشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کر رہی ہے۔قائداعظم یونیورسٹی کی ڈاکٹر سلمیٰ ملک نے کہا کہ بھارت سیاسی معیشت کے ساتھ ساتھ سفارت کاری کے ذریعے اپنے بیانیے کوفروغ دے رہا ہے۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button