مقبوضہ جموں وکشمیر:کنن پوشپورہ اجتماعی آبروریزی کی متاثرہ خواتین تاحال انصاف کی منتظر
اسلام آباد 23 فروری (کے ایم ایس) بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں تین دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود کنن پوش پورہ اجتماعی عصمت دری کی متاثرہ خواتین کو انصاف نہیں مل سکا۔بھارتی فوجیوں نے 23 فروری 1991 کی شب ضلع کپواڑہ کے علاقے کنن پوش پورہ میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائی کے دوران آٹھ سال کی بچیوں سے لے کر اسی برس کی خواتین تک کی 100 کے قریب کشمیری خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی تھی۔
کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے آج جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ کنن پوش پورہ اجتماعی عصمت دری کے واقعے کو اکتیس سال گزر چکے ہیں لیکن متاثرہ خواتین ابھی تک انصاف کی منتظر ہیں جبکہ گھناو¿نے جرم میں ملوث فوجی آزاد گھوم رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ کنن پوش پورہ اجتماعی عصمت دری کی یادیں کشمیری عوام کے ذہنوں میں آج بھی زندہ ہیں۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ بھارتی فوجیوں نے جنوری 1989 سے اب تک مقبوضہ جموںوکشمیر میں 11ہزار 2سو 47 خواتین کی عصمت دریعصمت دری اور بے حرمتی کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت کی طرف سے اپنے فوجیوں کو کالے قوانین کے تحت دی گئی استثنیٰ کنن پوش پورہ جیسے واقعات کی بنیادی وجہ ہے۔کنن پوش پورہ اجتماعی عصمت دری مقبوضہ جموںوکشمیر میں بھارتی فوجیوں کے جبر و استبداد کی ایک واضح مثال ہے۔ یہ بھارت کے نام نہاد جمہوری چہرے پر ایک دھبہ ہے جو مقبوضہ علاقے میں خواتین کی آبروریزی کو ریاستی دہشت گردی کے ایک آلہ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ کنن پوش پورہ واقعہ قابض بھارتی فوجیوں کی طرف سے کشمیر میں کیے جانے والے جنگی جرائم کا ثبوت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کشمیریوںکے جذبہ آزادی کو توڑنے کے لیے عصمت دری کو فوجی حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔کے ایم ایس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کنن پوش پورہ اجتماعی عصمت دری کیس کو دوبارہ کھولنے کے لیے بھارت پر دباو¿ ڈالا جانا چاہیے تاکہ مجرموں کو کٹہرے میں لایا جا سکے۔رپورٹ میں مزید کہاگیا کہ بھارت کو کشمیریوں کے خلاف گھناو¿نے جرائم کے ارتکاب کے لیے جوابدہ بنایا جانا چاہیے۔