مقبوضہ جموں و کشمیر

دو کشتیوں پر سواربھارت کو روس یوکرین تنازعے نے مشکل میں ڈال دیا

 

un

اسلام آباد 26 فروری (کے ایم ایس) امریکہ کی قیادت میں نیٹو ممالک اور روس کے درمیان یوکرین کے مسئلے پر جاری تنازعے نے بھارت کو مشکل میں ڈال دیا ہے اور اس پیش رفت پر قریبی نظررکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کو امریکہ اور روس کے درمیان توازن قائم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق امریکہ بھارت کو اپنے ساتھ دیکھنا چاہتا ہے جبکہ بھارت تزویراتی طور پر روس کے قریب ہے۔ بھارت طویل عرصے سے روس کے دفاعی ساز و سامان اور ہتھیاروں کا خریدار رہا ہے۔ لداخ اور دیگر جگہوں پر چین کے ساتھ تعطل کے پیش نظر بھارت روس کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔امریکہ اور روس کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش میں بھارت نے 31 جنوری کو یوکرین کشیدگی پر بحث کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔روس اور امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تناو¿ کے دوران بھارت چاہتا ہے کہ اس کے اسٹریٹجک پارٹنرز آپس میں نہ لڑ پڑیں تاکہ دہلی کو کسی بھی فریق کا ساتھ نہ دینا پڑے۔سفارتی ماہرین میڈیا میں اس معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔بھارتی فوج کے ریٹائرڈ میجر جنرل ہرش ککڑ نے یکم فروری کو ایک مقامی انگریزی اخبار” دی سٹیٹس مین“ میں لکھا کہ” غیر جانبداری بھارت کے لیے بہترین آپشن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کی غیر جانبداری نے امریکہ کو پریشان کر رکھا ہے“۔بھارت اپنی فوجی ضروریات کے لیے روس پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ بھارت اپنا 55 فیصد فوجی ساز و سامان روس سے خریدتا ہے۔ بھارت نے امریکہ کی مخالفت کے باوجود روس سے ایس-400 میزائل سسٹم خریدا۔امریکہ بھارت پر اس معاہدے کو منسوخ کرنے کے لیے دباو¿ ڈال رہا ہے لیکن بھارت کا موقف ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی آزاد ہے اور وہ ہتھیاروں کی خریداری میں قومی مفادات کو اولیت دیتا ہے۔
بھارت چین کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعے کو حل کرنے کے لیے کواڈ گروپ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ اتحاد کا خواہاں ہے۔حکومت نواز بھارتی نیوز چینل” زی نیوز “نے اپنے ایک پروگرام میں بھارتی مخمصے کے بارے میں بات کی۔ پروگرام میں بتایا گیا کہ یوکرین کا مسئلہ نریندر مودی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن دونوں ہی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دوست ہیں۔پروگرام میں کہا گیا کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی دوستی کا یہ مطلب نہیں کہ روس کے ساتھ اس کی پرانی دوستی کمزور ہو گئی ہے۔ یوکرین کے معاملے پر روس کا امریکہ کے ساتھ تناو¿ بڑھ گیا ہے اور پابندیاں ماسکو کو چین کے مزید قریب کر دیں گی۔اگر بھارت خفیہ طور پر یوکرین کے تنازعے پر امریکہ کا ساتھ دیتا ہے تو روس کی طرف سے بھارت کو ہتھیاروں کی فراہمی پر اس کا گہرا اثر پڑے گا۔ روس نے اب تک بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعے میں کھل کر کسی کا ساتھ نہیں دیا ہے اور بھارت کو امید ہے کہ روس اس معاملے میں غیر جانبدار رہے گا۔ تاہم روس۔یوکرین جنگ کے تناظر میں اور روس پر مغرب کی پابندیاں بھارت کے لیے مزید پریشانیوں کا باعث بنیں گی۔ بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار رنجیت سین نے ”دی ٹریبیون“ کے 22 جنوری کے شمارے میں لکھاکہ امریکہ اب تک بھارت کا سب سے اہم اسٹریٹجک پارٹنر رہا ہے۔اگر بھارت کو چین سے مقابلہ کرنا ہے تو اسے امریکہ کے ساتھ شراکت داری کی ضرورت ہے۔ اگر امریکہ کے ساتھ تعلقات مضبوط رہے تو بھارت چین کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔ لیکن بھارت امریکہ اتحاد روس کے لیے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔نومبر 2020 میں اقوام متحدہ نے کریمیا میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر یوکرین کی قرارداد منظور کی۔ اس وقت بھارت نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔اس سے قبل 2014 میں منموہن سنگھ کی حکومت نے کریمیا کے الحاق کے بعد روس پر مغربی پابندیوں کی مخالفت کی تھی۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button