بھارت میں سابق سرکاری افسران کا ”بلڈوزر انصاف”کے خاتمے کے لیے چیف جسٹس سے مداخلت کا مطالبہ
نئی دہلی22جون (کے ایم ایس)بھارت میںریٹائرڈ سرکاری افسران کے ایک گروپ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا پر زوردیا ہے کہ وہ ”بلڈوزرانصاف”کے تصور کے خاتمے کے لئے مداخلت کریں کیونکہ یہ اب بھارت کی بہت سی ریاستوں میں ایک معمول بنتا جارہا ہے۔
Constitutional Conduct Group (CCG)کے حصے کے طور پر 90سابق سرکاری افسران نے چیف جسٹس کے نام ایک کھلا خط لکھتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کو بی جے پی رہنمائوں کی طرف سے پیغمبراسلام حضرت محمد ۖکے بارے میں گستاخانہ بیانات کے خلاف مظاہروں کے بعد اتر پردیش میں غیر قانونی گرفتاریوں ، رہائش گاہوں کومسمارکرنے اور مظاہرین پر پولیس تشددکا از خود نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ گھروں کومسمار کرنے کی مہم اور سیاسی مقاصد کے لیے بلدیاتی اور شہری قوانین کا غلط استعمال انتظامیہ اور پولیس کو ظالمانہ اکثریتی جبر کے ہتھیار میں تبدیل کرنے کے لیے ایک بڑی پالیسی کا صرف ایک عنصر ہے۔سابق بیوروکریٹس نے کہا کہ کسی بھی احتجاج کو بے دردی سے دبانے کے لئے قومی سلامتی ایکٹ 1980اور اتر پردیش گینگسٹرس ایند اینٹی سوشل ایکٹیوٹیز پریوینشن ایکٹ 1986 کونافذ کرنے کی واضح ہدایات دی گئی ہیں۔پالیسی کے نفاذ کے لئے حکومت کے اعلی ترین سطح پر منظوری دی گئی ہے جبکہ مقامی سطح کے افسران اور پولیس اہلکار یقینی طور پر اختیارات کے بے دریغ استعمال کے لیے جوابدہ ہوتے ہیں ، اصل ذمہ داری اعلی سطح پر سیاسی انتظامیہ کی ہوتی ہے۔ یہ آئینی حکمرانی کی خلاف ورزی ہے جس کے لیے سپریم کورٹ کو قدم اٹھانے اوراس کو روکنے کی ضرورت ہے۔خط میں کہاگیا ہے کہ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات بلڈوزر انصاف کا تصور ہے جس کے تحت قانونی طور پر احتجاج کرنے یا حکومت پر تنقید کرنے یا قانونی طریقہ کار استعمال کر کے اختلاف رائے کرنے کی جرات کرنے والے شہریوں کو ظالمانہ سزا دی جارہی ہے اوریہ اب بھارت کی بہت سی ریاستوں میں ایک معمول بن گیا ہے۔ مسئلہ اب صرف مقامی سطح پر پولیس اور انتظامیہ کی زیادتیوںکا نہیں رہا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی اور”مجرم ثابت ہونے تک بے گناہ ہونے کا تصور” الٹا کیا جا رہا ہے۔سابق سرکاری افسران نے لکھا کہ ہم نے پریاگ راج(الہ آباد) میں ، کانپور میں ، سہارنپور میں اور بہت سے دوسرے قصبوں میں جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے، دیکھا ہے کہ ایک خاص طریقہ کار اختیارکیاجاتا ہے اور سیاسی طور پر ہدایات دی جاتی ہیں۔سی سی جی نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک عدلیہ اعلیٰ سطح پرفوری مداخلت نہیں کرتی اور فیصلہ کن اقدامات نہیں اٹھاتی ، آئینی حکمرانی کی پوری عمارت جو کہ گزشتہ 75 سال سے بڑی احتیاط سے تعمیر کی گئی ہے ، ٹوٹنے کا امکان ہے۔ خط پر دستخط کرنے والوں میں سابق مرکزی سیکرٹری داخلہ جی کے پلائی ، سابق سیکرٹری خارجہ سجاتا سنگھ ، انڈین پولیس سروس(آئی پی ایس)کے سابق افسران جولیو ربیرو ، اویناش موہانے ، میکس ویل پریرا اور اے کے سامنتا اور سماجی انصاف کی سابق سکریٹری انیتا اگنی ہوتری شامل ہیں۔سابق سرکاری افسران نے 14جون 2022 کو سپریم کورٹ اورہائی کورٹس کے سابق ججوں اور معروف وکلا ء کے ایک گروپ کی طرف سے چیف جسٹس کو بھیجی گئی ایک درخواست کی بھی حمایت کی اور انہیں اتر پردیش میں حالیہ کارروائیوں کا از خود نوٹس لینے کی درخواست کی۔