تیس سال گزرجانے کے باوجودلال چوک قتل عام کے مجرم بھارت میں آزاد گھوم رہے ہیں
سرینگر10 اپریل(کے ایم ایس) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز نے1993 میں آج ہی کے دن سرینگر کے مرکزی علاقے لال چوک میں125سے زائد بے گناہ کشمیریوں کو شہید اور درجنوں مکانات ، دکانوں اورکمرشل عمارتوںکو نذرآتش کردیا تھا۔
اس قتل عام سے بھارتی حکومت کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیاتھا۔ قتل عام کے اس المناک واقعے کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں ظلم و بربریت کے بدترین واقعات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں اور پیراملٹری فورسز کے اہلکاروں کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔بھارتی پیراملٹری فورسزنے 10اپریل 1993کو لال چوک سمیت سرینگر کے ایک بڑے علاقے کو نذر آتش کر دیا تھاجس کے نتیجے میں60سے زائد مکانات، پانچ تجارتی عمارتیں، 150دکانیں، دو سرکاری عمارتیں، درگاہیںاوراسکول مکمل طور پر جل کر خاکستر ہو گئے تھے۔ اس واقعے میں 47معصوم شہری زندہ جل گئے تھے اور مجموعی طورپر125سے زائدافراد شہید ہوئے تھے۔ماہرین کے مطابق یہ قتل عام غیر قانونی بھارتی قبضے کے خلاف لوگوں کی مزاحمت کو خاموش کرانے کے لیے بھارتی حکومت اور اس کے حواریوں کی ظلم و جبر کی پالیسی کے عین مطابق تھا۔انہوں نے کہاکہ بھارت نے جان بوجھ کر ایسے قوانین اور پالیسیاں بنائی ہیں جن کے تحت منظم طریقے سے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھاجاتا ہے جس سے بھارت مسلمانوں کے لیے ایک غیر محفوظ جگہ بن گیا ہے۔اس کے علاوہ بھارتی عدالتی نظام کو بھی آر ایس ایس کے ہندوتوا رنگ میں رنگ دیاگیاہے جو جموں و کشمیر کے لوگوں خاص کر مسلمانوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ لال چوک قتل عام کے سزا یافتہ مجرم اب بھی بھارت میں آزاد گھوم رہے ہیں۔بھارت مقبوضہ علاقے میں مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیاںکر رہا ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتیں بشمول عیسائی، سکھ اور دلت بھی بھارت میں مودی کی ہندوتوا پالیسیوں کا نشانہ ہیں۔