بھارت :منی پور میں ریاست کا کردار متعصبانہ رہا ہے: امن کارکن
اسلام آباد: امن کارکن شورش زدہ بھارتی ریاست منی پور کی صورتحال کو ایک متعصب ریاست کی انتہائی بے حسی قرار دے رہے ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق امن کارکن ہرش میندر نے اپنے منی پور کے دورے کے دوران جو مئی سے نسلی اور مذہبی تشدد کا شکار ہے، نسلی تشدد سے متاثرہ میتی اور کوکی خاندانوں سے ملاقات کی۔ سینکڑوں میتی اور کوکی کیمپوں میں مایوسی کی زندگی گزرانے پر مجبور ہیں اور انہیں اس بات کا یقین نہیں کہ وہ کبھی اپنے جلے ہوئے گائوں میں واپس جاپائیں گے۔32لاکھ آبادی والی ریاست میں میتی زیادہ تر ہندو ہیں جو نصف سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہیں اور وادی امپھال میں رہتے ہیں جبکہ کوکی مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے ہیں اور وہ یہاں بہت کم تعداد میں آباد ہیں اورزیادہ تر پہاڑی اضلاع میں رہتے ہیں۔ منی پور میں گزشتہ چھ سال سے بی جے پی کی حکومت ہے جہاں رواں سال مئی سے اب تک پرتشدد واقعات میں200 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں جن میں اکثریت کوکی عیسائیوں کی ہے۔ نسلی تشدد اس وقت شروع ہوا جب کوکیوں نے منی پور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا جس میں ریاستی حکومت سے کہا گیاہے کہ وہ میتی کمیونٹی کو درج فہرست قبائل کی فہرست میں شامل کرنے پر غور کرے۔ہرش میندر نے منی پور کی صورت حال کو ایک متعصب ریاست کی انتہائی بے حسی قرار دیاہے جس نے اقلیتی عیسائیوں کی مدد کے لیے کچھ نہیں کیا جنہیں زیادہ تعداد میں ہلاک اور بے گھرکردیا گیا ہے۔میندر نے کہا کہ اپنے تمام سالوں میں بطور انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس(آئی اے ایس)افسر اور پھر ایک کارکن کی حیثیت سے منی پور کے حالیہ واقعات جیسا کچھ نہیں دیکھاہے جس کے بارے میں ان کا کہناہے ، کہ یہ خانہ جنگی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ریاستی حکومت کا متعصبانہ کردار، اقلیتوں کی مدد کرنے سے گریز کرنااور مرکزی حکومت کی خاموشی، 2002کے گجرات فسادات کا منظر پیش کررہی تھی جہاں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور نقصان پہنچایاگیا۔ لیکن منی پور میں استعمال ہونے والے ہتھیار زیادہ جدید اور مہلک ہیں۔بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ریاست کے 62سالہ وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ نے جو ایک میتی ہندو ہیں، نسلی تنازعے میں ایک متعصبانہ کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے جانوں کا ضیاع ہوا ، لوگ بے گھر ہوگئے اور ان لوگوں کو شدید تکلیف پہنچی جن کے پیاروں کو قتل کیاگیا اور گھروں کونذراآتش کیاگیا۔