مقبوضہ جموں و کشمیر

مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں پریس کی آزادی سکڑرہی ہے

 

modi press

اسلام آباد: نریندر مودی کی زیر قیادت فسطائی بھارتی حکومت آزادی صحافت کے بنیادی اصولوں کو پامال کر رہی ہے اور 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں پریس کی آزادی سکڑ رہی ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے آج جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی کے بھارت میں صحافیوں کو قتل کرنا، ان کے خلاف مقدمات درج کرنا اور انہیںڈرانا دھمکانا ایک عام سی بات ہے جبکہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی کی قیادت میں بھارت نے حکومتی نگرانی کو بڑھانے اور پریس کی آزادی کو متاثر کرنے کے لیے مختلف قوانین منظور کیے ہیں جبکہ ان صحافیوں کو مقدمات کے ذریعے ہراساں کیا جارہا ہے اور دھمکیا دی جارہی ہیں جو بھارتیہ جنتا پارٹی کے موقف کی حمایت نہیں کرتے اور سچ بولنے پران کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جارہے ہیں۔ رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ 5اگست 2019سے  مقبوضہ جموں و کشمیر میں قابض حکام نے صحافیوں کے خلاف سخت کارروائیاں شروع کررکھی ہیں اورمئی 2020میں متعارف کرائی گئی نئی میڈیا پالیسی کا مقصد علاقے میں آزادی صحافت پر مزید پابندیاں عائد کرنا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی کی زیر قیادت بھارت عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں مسلسل نیچے کی طرف گامزن ہے اور 2014میںجب سے مودی وزیر اعظم بنے ہیں، بھارت180ممالک میں آزادی صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 140سے 150ویں نمبر پر آ گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی کا بھارت دنیا میں نیٹ ورک بند کرنے کا سب سے زیادہ حکم دینے والا ملک ہے اور بھارت میں ذرائع ابلاغ کے زیادہ تر اداروں کو بی جے پی نے خریدلیا ہے اور انہیں بھارتی ایجنسیاں چلا رہی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں ذرائع ابلاغ کے بہت سے ادارے بی جے پی اور آر ایس ایس سے وابستہ بزنس ٹائیکونز کی ملکیت ہیں جو ہندوتوا پالیسیوں کے لیے کام کرتے ہیں۔ رپورٹ میں افسوس کا اظہارکیاگیاکہ مودی حکومت مذہبی اقلیتوں کے خلاف اپنے جرائم کو دنیا سے چھپانے کے لیے آزاد پریس کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی برادری کو مودی حکومت پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ کالے قوانین کے ذریعے میڈیا پر اپنا کنٹرول بڑھانا بند کرے۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button