اسرائیلی اور بھارت کی جدید تاریخ میں یکسانیت پائی جاتی ہے
سرینگر:سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ اسرائیل اور بھارت کی جدید تایخ میں بہت زیادہ یکسانیت پائی جاتی ہے کیونکہ دونوں ہی برطانوی استعمار کی جعلسازی کی پیداوار ہیں۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے سرینگر میں اپنے انٹرویوز اور بیانات میں کہا کہ دونوں ملکوں کے نوآبادیاتی حکام حکمرانی کے لئے ”تقسیم کرو اور فتح کرو”کے اصول کا استعمال کرتی ہیں اورقبائلی یا مذہبی گروپوں کے درمیان تنازعات کو برقرار رکھنے کے لیے ان کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مشترکہ استعماری دشمن کے خلاف متحد نہیں ہوپاتے۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں1980کی دہائی میں ایک مسلم دشمن نیم فوجی تحریک راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ سے ایک نئی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے جنم لیاجس نے ہندو قوم کی نسلی بالادستی کے عقیدے کا پرچارکیا جو جرمن اور اطالوی فاشزم پر مبنی تھا۔، انہوں نے کہاکہ اسی طرح اسرائیل میں دائیں بازو کی جماعتوں نے 1977سے تقریبا بغیر کسی رکاوٹ کے حکومت کی ہے۔سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں دائیں بازو کی جماعتوں نے فلسطینی زمینوں اور وسائل پر قبضے کے لیے کام کیا جس کے نتیجے میں مغربی کنارے کا تقریباً انضمام ہوگیا۔ اس نسل پرستی کے نظام میں یہودی آباد کار مکمل شہری اور فلسطینی ناپسندیدہ قرارپائے۔ اسرائیل اور بھارت سمجھتے ہیں کہ وہ ایک مشترکہ دشمن (مسلمان) کا سامنا کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے لیے دشمن حزب اللہ اور حماس جیسی اسلامی تنظیمیں اور ایران جیسے ممالک ہیں اور بھارت پاکستانی جہادیوں اور کشمیر کی بڑھتی ہوئی تحریک آزادی کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ اسرائیل اور بھارت دونوں میں مسلم اقلیتی برادریاں موجود ہیں جنہیں اکثریتی مذاہب کے لوگ(یہودی اور ہندو)اپنے تسلط کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور بھارت دونوں نے اپنے اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے طاقتور امریکی لابیاں قائم کررکھی ہیں۔سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہر ملک میں حکمران جماعتوں کی مذہبی انتہا پسندی کو دیکھتے ہوئے اندرونی لابیاں اسی اسلامو فوبیا کی عکاسی کرتی ہیں جس طرح متعدد اسرائیل نواز تنظیمیں اسرائیل کی آباد کار کالونیوں کی حمایت میں کروڑوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دیگر اسلام دشمنی کے لیے سیاسی تحفظ کی پیش کش کرتے ہیں جن میں اینٹی ڈیفیمیشن لیگ، امریکن جیوش کمیٹی، اسٹینڈ وِداس ، مڈل ایسٹ فورم اور دیگرشامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی ہندوئوں نے امریکی یہودی کمیونٹی کی نقل کی ہے جو ہندوتوا اقدار کو فروغ دینے کے لئے تھنک ٹینکس، فائونڈیشنز اور لابنگ گروپس کا نیٹ ورک بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان میں ہندو امریکن فائونڈیشن (HAF)، دھرم تہذیب فائونڈیشن (DCF) اور ایکل ودیالیہ فائونڈیشن (RSS)شامل ہیں۔سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے کہا کہ ہندوتوا اور یہودی بالادستی کا عروج دونوں ممالک کو جمہوریتوں کو نسل پرستی میں تبدیل کر رہا ہے جہاں مذہبی اکثریت(ہندو، یہودی)کو اقلیت (فلسطینی، بھارتی مسلمانوں)پر فوقیت دی جارہی ہے۔اس کامقصد ایک ارب 80کروڑ پیروکاروں کے عالمی مذہب کو محکوم بنانا ہے۔انہوں نے کہاکہ اس طرح کے خطرناک منصوبوں سے نہ صرف مذہبی برادریوں کے درمیان انفرادی جھگڑے پیدا ہونگے جس طرح گجرات، کشمیر، ہریانہ، منی پور میں ہوا بلکہ قومی سطح پر بڑے مذہبی گروہوں کے درمیان قتل عام کا باعث بنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملکوں کے درمیان جنگ کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔