بھارت

بھارت میں سو سے زائد شہری اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کا آمرانہ تبدیلیوں پراظہار تشویش

human rights iconنئی دہلی: بھارت میں انسانی اورشہری حقوق کے علمبرداروں، سابق بیوروکریٹس ، میڈیا کے پیشہ ور افراد اور ماہرین تعلیم سمیت سول سوسائٹی کے سو سے زائد ارکان نے ملک میں بڑھتی ہوئی آمرانہ تبدیلیوں پرشدید تشویش کا اظہار کیاہے۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق انہوں نے نئی دہلی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں خاص طورپر نوجوانوں اور خواتین میں بے روزگاری جیسے اہم مسائل سے نمٹنے، اکثریتی فرقہ واریت کی لہر کو روکنے، آئینی حقوق کے تحفظ اور قانونی اداروں کی خودمختاری، وفاقی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور مساوات اور سماجی انصاف کو فروغ دینے کا مطالبہ کیا۔کانفرنس میں منظور کی گئی قراردادوں میں نئے انڈین جسٹس کوڈ، انڈین سول ڈیفنس کوڈ اور انڈین ایویڈنس بلوں پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیاجن کے تحت کسی بھی شخص کو محض شک کی بنیاد پر گرفتارکیا جاسکتا ہے اور دہشت گردی کی تعریف کو وسیع کرتے ہوئے اس میں پرامن احتجاج اور سڑک بندکرنے کو بھی شامل کیاگیا ہے۔ کانفرنس نے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون یو اے پی اے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں نافذ پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کو منسوخ کرنے کی سفارش کی۔کانفرنس نے اندرونی تنازعات میں مسلح افواج کی تعیناتی سے گریز کرنے اور 1951کی سفارش کہ پریوینٹو ڈیٹنشن ایکٹ کا اطلاق صرف حالت جنگ میں ہونا چاہیے، کی توثیق کی ۔کانفرنس نے حکومت کے ناقدین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کئے جانے والے پریوینشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ2002میں جامع تبدیلیوں کا مطالبہ کیاگیا۔دیگر اہم تجاویز میں 1947کی کٹ آف تاریخ کے ساتھ 1992کے عبادت گاہوں کے ایکٹ کو سختی سے نافذ کرنا اور ایک جامع انسداد امتیازی قانون بنانا، شہریوں کو مختلف شعبوں میں امتیازی سلوک کے خلاف تحفظ فراہم کرنا اور 2019کے شہریت ترمیمی قانون کو منسوخ کرنا شامل ہے۔ کانفرنس سے دیگر لوگوں کے علاوہ کانگریس کے سینئر رہنماسلمان خورشید، منیش تیواری، سی پی آئی ایم کے لیڈر سیتارام یچوری ،محمد یوسف تاریگام،نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ اوررکن پارلیمنٹ کپل سبل نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button