مساجد کے انہدام سے بھارت کے سیکولر تانے بانے کو خطرہ ہے: جماعت اسلامی ہند
نئی دہلی : جماعت اسلامی ہندکے سربراہ سید سعادت اللہ حسینی نے کہا ہے کہ مساجد، مدارس اورمسلمانوں کی دیگر عمارات کو مسمار کر نابھارت میں مسلمانوں کی شناخت کے لیے خطرہ ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سید سعادت اللہ حسینی نے کیرالہ میں ”ہندوتوا کی مزاحمت کرو”کے زیر عنوان ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی کے مختلف علاقوںاور بھارت کی دیگر ریاستوں میں مسماری کی مہم نہ صرف مسلمانوں کی شناخت کے لیے خطرہ ہے لیکن اس سے بھارت کے سیکولر تانے بانے کو بھی خطرہ لاحق ہے۔انہوں نے فرقہ پرستی، نفرت اور نسل پرستی کے خلاف پرعزم مزاحمت کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے مختلف مذاہب کے درمیان نفرت اور تقسیم کے خطرناک رجحان کو اجاگر کرتے ہوئے مشہور برطانوی مورخ آرنلڈ ٹوئنبی کے اس قول کا حوالہ دیا کہ”تہذیبیں قتل سے نہیں خودکشی سے مرتی ہیں”۔ انہوں نے کہا کہ ترقی اور خوشحالی پر نفرت پھیلانے کو ترجیح دی جارہی ہے۔سعادت اللہ حسینی نے اداروں پر اعتماد کے فقدان اور فرقہ وارانہ ایجنڈوں کے لیے عدالتی نظام میں ہیراپھیری کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے قانون کے مخصوص اطلاق اور سیاسی رہنمائوں کی طرف سے نفرت انگیز تقاریر کو معمول بنانے کی مذمت کی۔جنوبی دہلی کے مہرولی علاقے میں حال ہی میں 600سال پرانی اخونجی مسجد سمیت مساجد کے انہدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حسینی نے فرقہ وارانہ سیاست کے خطرناک رحجان سے خبردار کیا جس سے نہ صرف مسلمانوں کو خطرہ ہے بلکہ عدالتی ساکھ اور قانون کی حکمرانی کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ انہوں نے جبر کے خلاف مزاحمت اور مذہبی آزادی کے تحفظ کے لیے تعلیمی اور معاشی طوپر بااختیار ہونے کی اہمیت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ناانصافی کے خلاف مزاحمت نہ صرف ایک اخلاقی ذمہ داری بلکہ ایک مذہبی فریضہ بھی ہے۔ انہوں نے تمام شہریوں پر زور دیا کہ وہ کسی بھی برادری پر ظلم کے خلاف متحد ہو جائیں۔