بھارت میں روزانہ 3دلت خواتین کی عصمت دری اور 2کو قتل کیاجاتا ہے
اسلام آباد07 دسمبر (کے ایم ایس)
فسطائی راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کے زیر اثرمودی حکومت بھارت کو ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم ملک میںدلتوںکو جوہندوﺅںکی آبادی کاتقریبا ایک چوتھائی ہیں ، مساوی شہری نہیں سمجھا جاتا اور انہیں اونچی ذات کے ہندوﺅںکے مندروںمیں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میںدلت برادری کوجسے ”اچھوت“بھی کہا جاتا ہے ،صدیوں سے نام نہاد اونچی ذات کے ہندوﺅں کی طرف سے منظم ظلم وجبر کا سامنا ہے۔بھارت میں ذات پات اور ہندو ثقافت کے نظام کے تحت اونچی ذات کے ہندودلتوںکو یکساں حقوق نہیں دیتے ہیں۔بھارت کے بعض دیہات میں دلتوںکو جوتے پہننے ، سائیکل یا گھوڑے پر سوارہونے، اونچی ذات کے ہندوﺅں کے سامنے اپنی بارات لے جانے یا اونچی ذات کے ہندوﺅں کے مندر میں پوجا کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔گزشتہ کچھ برس کے دوران دلتوں پرڈھائے جانیوالے مظالم کے ایک جائزے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہندو سماج میں دلتوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بشمول پولیس اور عدلیہ ہمیشہ اونچی ذات کے ہندومجرموں کی حمایت کرتے ہیں ۔بھارت میں 2011میں کی گئی مردم شماری سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت کی دلت آبادی کا تقریبا نصف حصہ چار ریاستوںمیں مقیم ہے۔ اتر پردیش پہلے نمبر ہے جہاںمجموعی آبادی کا20.5 شیڈول کاسٹ پر مشتمل ہے، جبکہ دلت ہندوستان کی آبادی کا تقریبا 16.6فیصدہیں۔اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود دلتوں کو ہمیشہ اونچی ذات کے ہندوﺅں کے ہاتھوں تذلیل، ظلم و تشدد اور خواتین کو عصمت دری کا خوف رہتا ہے ۔ دلت خواتین دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم ہیں۔ مودی کے ہندوستان میں دلت خواتین کو عصمت دری اور بھوک کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔حال ہی میں ریاست اتر پردیش میں متھرا کے علاقے کوسی کلاں میں جسم فروشی سے انکار کرنے پر دلت لڑکی کو اغوا کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا گیاتھا۔ کے ایم ایس کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں دلت خواتین کواکثر عصمت دری کانشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ اعلی ذات کے ہندو سمجھتے ہیں کہ انہیں ان کی عصمت دری کا حق حاصل ہے۔ بھارت میں روزانہ اوسطاً 3 دلت خواتین کی عصمت دری اور 2 کو قتل کیا جاتا ہے۔ بھارت میں دلت لڑکیوں کے خلاف ہونے والے حملوں کو پولیس اور میڈیا اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔