بابائے حریت سید علی گیلانی انتقال کر گئے
مودی حکومت نے اہلخانہ سے میت چھین کر فوجی محاصرے میں سپرد خاک کردی
سرینگر 02 ستمبر(کے ایم ایس)بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں تحریک آزادی کشمیر کی انتہائی توانا آواز اورمزاحمت کی علامت بابائے حریت سید علی گیلانی گزشتہ شب سرینگر میں 12برس تک بھارت کی حراست میں رہنے کے بعد شہید ہوگئے ۔ ان کی عمر 92برس تھی ۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق متعدد عارضوں میں مبتلا ہونے کے باوجود سیدعلی گیلانی مسلسل کئی برس تک گھر میں نظربند رہے جس کی وجہ سے ان کی صحت بری طرح متاثرہوگئی۔ 2015میں بھارتی حکومت نے ان کی حیدرپورہ کی رہائشگاہ کو سب جیل قراردے کر انکی آزادانہ نقل و حرکت اور اظہار رائے پر پابندی عائد کر دی تھی اور یہ پابندیاں ان کی وفات تک جاری رہیں۔بدھ کی دوپہر ان کی حالت خراب ہو گئی اورگزشتہ شب وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔
جیسے ہی سیدعلی گیلانی کی وفات کی خبر پھیلی ، سرینگر میں مساجد سے اعلانات میں کشمیریوں سے بابائے حریت کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے گھروں سے باہر نکل آنے کیلئے کہاگیا ۔ تاہم بھارت نے راتوں رات سخت کرفیو اور مواصلاتی بلیک آﺅٹ نافذ کر کے وادی کشمیر کو ایک نئی گوانتانامو بے جیل میںتبدیل کردیا۔جہاں لوگوں کے سمندر کو سیدعلی گیلانی کے جنازے میں شرکت کیلئے حیدر پورہ سرینگر میں انکی رہائش گاہ کے باہر جمع ہونے سے روکنے کیلئے بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی بھاری نفری کو تعینات کیاگیا تھا ۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر بھارت لوگوں کو بندوق کی نوک پر گھروں کے اندر رہنے پر مجبور نہ کرتا تو یہ جموں و کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ہوتا ۔ مرحوم رہنما کی میت کو جیسے ہی پاکستانی جھنڈے میں لپیٹا گیا اور سوگواروں نے” ہم کیا چاہتے آزادی اور ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے “ جیسے فلک شگاف نعرے لگانے شروع کیے ۔ بھارتی فورسز کے اہلکاروں کی بھاری نفری سید علی گیلانی رہائش گاہ میں گھس گئی اور انکے اہلخانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا اور میت زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ مزاحمت کے دوران سید علی گیلانی کا بیٹا ڈاکٹر نعیم اور ان کی اہلیہ پولیس تشدد سے زخمی ہوئے۔ قابض بھارتی اہلکاروں نے سید علی گیلانی کی وصیت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میت رات کے اندھیرے میں سرینگر کے حیدر پورہ قبرستان میں دفن کردی جبکہ ان کے اہل خانہ کے مطابق بزرگ رہنما کی وصیت کے تحت انہیں سرینگر کے مزار شہدا ءمیں دفن کیا جانا تھا۔
29 ستمبر 1929 کو ضلع بارہمولہ کے سوپور قصبے میں پیدا ہونے والے سید علی گیلانی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر سے حاصل کی جبکہ اورینٹل کالج لاہور سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ بزرگ رہنما اپنی پوری زندگی جموں و کشمیر کی غیر قانونی بھارتی قبضے سے آزادی کی جدوجہد کرتے رہے۔ وہ پہلے جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے پلیٹ فارم سے اور بعد میں تحریک حریت جموں و کشمیر کے نام سے اپنی جماعت سے حق خود ارادیت کی جدوجہد کرتے رہے ۔انہوں نے کئی برسوں تک کل جماعتی حریت کانفرنس کی قیادت کی۔ وہ اپنے مادر وطن پر غیر قانونی بھارتی قبضے کے سخت مخالف تھے جسکی پاداش میں انہیں کئی برس تک مختلف بھارتی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ سید علی گیلانی جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے پرجوش حامی تھے اور مشہور نعرہ ” ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ان ہی کا تخلیق کر دہ ہے۔ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے ان کی دہائیوں پرانی جدوجہد کے اعتراف میں انہیں گزشتہ برس صدر ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز” نشانِ پاکستان“ عطا کیا تھا۔
کل جماعتی حریت کانفرنس اور دیگر حریت رہنماوں اور تنظیموں اور واشنگٹن میں قائم ”کشمیر ایوائیر نس فورم “نے اپنے بیانات میں سید علی گیلانی کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے مقبوضہ جموں وکشمیر اورآزاد جموں و کشمیر کے لوگوں ، پاکستان کے عوام ، تارکین وطن کشمیریوں اور پوری مسلم امہ سے اپیل کی کہ وہ مرحوم رہنما کے لیے کل غائبانہ نماز ادا کریں۔
سید علی گیلانی کی غائبانہ نماز جنازہ آج پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد اور پاکستان اور آزاد کشمیر کے دیگر مقامات پر ادا کی گئی۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی ، آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی اور حریت رہنماو¿ں سمیت زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے نما ز جنازہ میں شرکت کی۔