مضامین

شہید محمد اشرف صحرائی کا پہلا یوم شہادت

shahbazمحمد شہباز

مقبوضہ جموں و کشمیر میں تحریک حریت کے چیئرمین اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنماشہید محمد اشرف صحرائی کا پہلا یوم شہادت آج روز پورے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں اس عزم کی تجدید کے ساتھ منایا جارہاہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے جاری جدوجہدمیں اپنی جانوں کا نذارانہ پیش کرنے والوں کی قربانیوں کو ہر حال میں پائیہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔یاد رہے کہ محمد اشرف صحرائی کو ان کے لخت جگر جنید صحرائی کی شہادت کے بعد گرفتار کرکے ادھمپور جیل جموں میں مقید کرکے انہیں تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا،جس کے نتیجے میںوہ 5مئی 2021ء کو جیل کے اندر ہی اللہ کو پیارے ہوگئے،ان کی میت راتوں رات ان کے آبائی علاقہ لولاب پہنچائی گئی اور صرف خاندان کے 20 افراد کو ان کی نماز جنازہ میں شامل ہونے دیاگیا، مقبوضہ کشمیر کی تمام مساجد میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی،جبکہ آزاد کشمیر اور پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر ان کی غائبانہ نمازکا اہتمام کیا گیاتھا۔حد تو یہ ہے کہ ان کی شہادت کے چند دن بعد ہی ان کے دو بیٹوں مجاہد اشرف صحرائی اور راشد اشرف صحرائی کو گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا،اور وہ آج بھی بھارتی عقوبت خانے میں مقید ہیں۔محمد اشرف صحرائی کو ان کے پہلے یوم شہادت پر بھرپور خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے پورے مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی،جبکہ مقبوضہ کشمیر میں پوسٹرز بھی چسپان کئے گئے تھے ۔جن میں تحریک آزدای کشمیر کے تمام شہدا کے اہلخانہ سے اظہار یکجہتی کے لیے پورے مقبوضہ کشمیر اور دیگر علاقوں میں مکمل ہڑتال کی کال دی گئی ہے۔ محمد اشرف صحرائی جنہوں نے کئی دہائیوں تک مقبوضہ جموں وکشمیرپر بھارت کے غیر قانونی اور غاصبانہ قبضے کو چیلنج کررکھا تھا، 05مئی 2021کو دوران حراست انتقال کر گئے۔ ان کی حراستی موت کی براہ راست ذمہ دار مودی حکومت ہے کیونکہ متعدد عارضوں میں مبتلا ہونے کے باوجودادھم پور جیل میںانہیں علاج کی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔محمد اشرف صحرائی کے لخت جگر جنید صحرائی بھی مئی 2020میں بھارتی قبضے کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے تھے۔
محمد اشرف صحرائی جنہوں نے کئی دہائیوں سے مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کو چیلنج کیا تھا،محمد اشرف صحرائی کی حراستی موت نے پھر ایک بار ثابت کر دیا کہ مودی حکومت آزادی پسند کشمیری قیادت کو قتل کرنے پر تلی ہوئی ہے۔محمد اشرف صحرائی کو کئی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باوجود ادھم پور جیل میں علاج و معالجہ سے محروم رکھا گیا۔ یقینا اہل کشمیر شہید محمد اشرف صحرائی کو بھارتی قبضے کے خلاف مزاحمت کی علامت کے طور پر دیکھتے رہیں گے۔ محمد اشرف صحرائی کشمیری عوام کے دلوں میں تحریک آزادی میں دی جانے والی اپنی قربانیوں کے لیے زندہ رہیں گے۔بلاشبہ محمد اشرف صحرائی اور ان کے خاندان کی قربانیاں مقبوضہ کشمیر کی تاریخ کا سنہری باب ہیں۔جناب محمد اشرف صحرائی کی قربانی گواہی دیتی ہے کہ کچھ بھی ہو بھارت کشمیری قیادت کے عزم کو کبھی نہیں توڑ سکتا ۔محمد اشرف صحرائی جیسے شہدا کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کا حقیقی اثاثہ ہیں۔ صحرائی صاحب اور دیگر شہد ا وحشیانہ بھارتی قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے والے اہل کشمیر کے ہیرو ہیں، اہل کشمیرکو تحریک آزادی کے لیے محمد اشرف صحرائی کے غیر متزلزل عزم سے تحریک ملتی رہے گی۔ محمد اشرف صحرائی بھارتی ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت بنے رہیں گے۔محمد اشرف صحرائی تحریک آزادی کشمیر کے قائد سید علی گیلانی کے وفادار اور قابل اعتماد دست راس تھے۔اس کے علاوہ شہید اشرف صحرائی پوری زندگی پاکستان کے پرجوش حامی رہے۔محمد اشرف صحرائی جیسے شہدا اپنے خون سے مادر وطن کا مستقبل لکھ رہے ہیں۔ کشمیری عوام بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزادی تک محمد اشرف صحرائی کے راستے پر گامزن رہیں گے۔ کشمیری عوام محمد اشرف صحرائی کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ اقوام متحدہ کو محمد اشرف صحرائی کی حراستی موت کی تحقیقات کرنی چاہیے۔
محمد اشرف صحرائی کی عمر 77برس تھی جب ان پر کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیاگیا تھا جس کے تحت وہ جموں کی ادھمپور جیل میں نظربند تھے،جہاں انکی حالت تشویشناک حد تک بگڑنے کے باوجود علاج معالجے کی سہولت تک فراہم نہ کی گئی، پھرانہیں اسوقت ہسپتال منتقل کیاگیا جب ان کے زندہ بچنے کے امکانات بالکل ختم ہو چکے تھے،جبکہ ان کے اہلخانہ کو ان کی بگڑتی ہوئی صحت کے بارے میں بھی لاعلم رکھاگیاتھا، وہ جماعت اسلا می مقبوضہ کشمیر کے رکن بھی تھے،اوراگر یہ کہا جائے کہ وہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے نظریہ ساز تھے،تو غلط نہیں ہوگا۔وہ تقریبا نصف صدی سے زائد عرصے تک جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے ساتھ وابستہ رہے۔ انہو ں نے مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غیر قانونی تسلط کیخلاف انتھک جدوجہد کی، محمد اشرف صحرائی سخت جان آزادی پسند تھے او رانہوں نے جدوجہد آزاد ی کی راہ میں اپنے بیٹے جنید صحرائی کی جان کا نذرانہ بھی پیش کیا۔جنید نے 19مئی2020کو سرینگر میںبھارتی سفاکوںں کیساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا۔
77 برس کے محمد اشرف صحرائی کے لخت جگر جنید صحرائی نے MBA کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی ،بھارتی جبر کے نتیجے میںجنید نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور پھر اپنی جان بھی قربان کی۔ بیٹے کی شہادت کے فورا بعد جولائی کے مہینے میں محمد اشرف خان صحرائی کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید کیا گیا تھا۔۔ ان کی جیل میں وفات سے کشمیری نظربندوں کی سلامتی کے بارے میں تشویش مزید بڑھ گئی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں کشمیر بار ایسوسی ایشن کے عہدیدار ایڈوکیٹ غلام نبی شاہین نے جناب صحرائی کی موت کو حراستی قتل قرار دیا تھا۔شہادت کے وقت تک جناب صحرائی تحریک حریت کے سربراہ تھے۔ صحرائی صاحب دہائیوں تک بھارتی جیلوں میں رہے۔پاکستان کی سابق وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے محمد اشرف صحرائی کی جیل میں وفات پر ٹویٹ میں لکھا تھاکہ بھارتی فسطائیت کشمیریوں کو خاموش نہیں کر سکتی۔محمداشرف صحرائی جماعت اسلامی کے ان چند رہنماوں میں شامل ہیں جنھوں نے انتخابی سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا تاہم موجودہ حالات میں قید کے دوران ان کی موت نے ان مطالبوں کو تقویت پہنچائی ہے جن میں کشمیری نظربندوں کی سلامتی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔یاد رہے کہ 5 اگست 2019 میں جب مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا گیا تو پوری آزادی پسند قیادت اور ان کے کارکنوں کو قید کیا گیا۔جس کے بعد مقبوضہ جموں کشمیر کی ایک درجن سے زائدجیلوں میں مقید تقریبا پانچ ہزار کشمیری نظربندوں کے بارے میں تشویش ظاہر کی گئی۔مقبوضہ جموں کشمیر کی 13 جیلوں میںہزاروںافراد قید میں ہیں جن میں اکثر آزادی پسندی کے الزام میں بھی قید ہیں۔
بدنام زمانہ نئی دہلی کی تہاڑ جیل میںمقید درجنوں حریت رہنماوں کے اہلخانہ بار بار اپیل کر رہے ہیں کہ انھیں واپس وادی کشمیر کی جیلوں میں منتقل کیا جائے۔یقیناکشمیری عوام محمد اشرف صحرائی کی تحریک آزادی کشمیر کیلئے قابل قدر جدوجہد اور عظیم قربانیوں پر انہیںسلام پیش کرتے ہیں۔ جس نے آخری سانس بھی بھارتی حراست میں لے کر تحریک آزادی کشمیر سے وفا کی روشن مثال قائم کی ہے،ان کی تمام عمر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف برسرپیکار رہتے ہوئے گزری، کوئی جبر انہیں ان کی راہ سے ہٹا نہیں سکا، اپنے صاحبزادے جنید صحرائی کی شہادت کا غم بھی انہوں نے ناقابل بیان ہمت سے سہا، وہ آخری دم تک کشمیریوں کی آزادی اور غا صب بھارتی افواج کے خلاف سینہ تان کر کھڑے رہے۔ ان کی جدوجہد تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔ کشمیری عوام نے گزشتہ سات دہائیوں سے تحریک آزادی میں وہ قربانیاں دی ہیں جن کی مثال حالیہ تاریخ میں شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ بھارتی جارحیت کیخلاف جدوجہد کرنیوالی کشمیری عوام کی تیسری نسل اس وقت بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے برسر پیکار ہے۔ کشمیری عوام میں بھارت سے جلد آزادی حاصل کرنے کا جذبہ عروج پر پہنچ چکا ہے اور مودی حکومت کے تمام فسطائی ہتھکنڈے آزدای کی چنگاری کودبانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ محمد اشرف صحر ائی اور ان کے خاندان کی تحریک آزادی کیلئے عظیم قربانیاں ہیں، جن پر اہل کشمیر کو فخر ہے، بھارت کی قید وبند کی صعوبتیں ان کے آہنی عزم کو متزلز ل نہیں کر سکیں۔محمد اشرف صحرائی عزم صمیم کا پیکر تھے، تحریک آزادی کیلئے انہوں نے بیٹے کی شہادت پر کہا،ان کے دوسرے بیٹے بھی شہادت کیلئے تیار ہیں۔جب جنید نے حزب المجاہدین میں شامل ہوکر عسکری جد وجہد کا راستہ اختیار کیا تھا تو قابض بھارتی انتظامیہ نے جناب محمد اشرف صحرائی سے بیٹے کو واپس آنے کی اپیل کرنے کیلئے کہا تھا جس پر اس مرد قلندر اوراہل بصرت نے یہ تاریخی الفاظ کہہ کر ہمیشہ کیلئے تاریخ میں امر ہوگئے کہ جب ہم دوسرے بیٹوں کو واپس آنے کی اپیل نہیں کرتے تو میں اپنے بیٹے جنید کو واپس آنے کی اپیل کیوں کروں گا؟کیا جنید کا خون دوسرے کشمیری بیٹوں سے قیمتی ہے؟لہذا میں جنید کو واپس آنے کی اپیل نہیں کروں گا،انہوں نے جو راستہ اختیار کیا ہے،وہ سوچ سمجھ کر ہی اختیار کیا ہے۔ان الفاظ نے جناب محمد اشرف صحرائی کو پوری دنیا کے آزادی پسندوں کی نظروں میں ایسا باعزت مقام اور مرتبہ عطا کیا ہے کہ جس کے بارے میں دوسرے لوگ خواہش ہی کرسکتے ہیں،لیکن ایسا مقام و مرتبہ مرد کوہستانی جناب اشرف صحرائی کا ہی نصیب ہوسکتا ہے۔
حزب المجاہدین کے سربراہ اور متحدہ جہاد کو نسل کے چیرمین سید صلاح الدین نے اپنے قائد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ تحریک اسلامی اور تحریک آزادی کشمیر کے ممتاز اور صف اول کے قائد تھے۔انہوں نے پوری زندگی غلبہ اسلام اور تحریک آزادی کیلئے وقف کی تھی۔زندگی کا بیشتر حصہ تعذیب خانوں اور جیلوں میں گذارا لیکن اپنے نظریات پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا۔ اس تحریک میں ان کے فرزند جنید صحرائی ان کی شہادت سے ایک سال پہلے 19مئی2020 کو شہادت سے سرفراز ہوئے۔ان کا پورا خاندان عتاب کا شکار رہا لیکن یہ سب کچھ وہ عزیمت کا پہاڑ بن کر برداشت کرتے رہے ۔ تکلیف دہ صورتحال میںجیل کے اندر شہادت کا جام پی کر اللہ کے حضور پہنچے۔ان کی شہادت سے ایک خلا پیدا ہوا ہے اور اس خلا کو پر کرنا آسان نہیں ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس عظیم قائدکے سیرت و کردار نے لاکھوں شاگرد ایسے تیار کئے ہیں جو اس کے چھوڑے ہوئے مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے جدوجہد میں شامل ہیں اور زندگی کی آخری سانس تک اس عظیم جدوجہد کو جاری رکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے جنرل سیکرٹری مولوی بشیر احمد نے شہید عزیمت محمد اشرف خان صحرائی کو ان کے پہلے یوم شہادت پر ان الفاظ میںخراج عقیدت پیش کیا کہ شہید محمد اشرف خان صحرائی تحریک آزادی کشمیر کے ایک نڈر ،بے لوث اور انتہائی مخلص رہنما تھے، وہ ایک شہید بیٹے جنید صحرائی کے والدتھے جبکہ ان کے خاندان کے کئی اور لوگ بھی تحریک آزدای میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ شہید محمداشرف صحرائی نے زندگی کا بیشتر حصہ بھارتی جیلوں میں گزارا لیکن ان کے پایہ استقلال میں کبھی کوئی لغزش نہ آئی، قید و بند کی صعوبتوں کو اپنے اسلاف کی سنت سمجھ کر برداشت کیا ۔ اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی کہ امام ابوحنیفہ کی طرح ان کا جنازہ بھی جیل سے اٹھا۔وہ صرف گفتار کے نہیں بلکہ کردارکے بھی غازی تھے۔شہید محمداشرف صحرائی اپنے پیچھے عزم و ہمت اور قربانیوں کی لازوال داستان چھوڑ گئے اور آخری دم تک تحریک آزادی کشمیرکے ساتھ اپنا عہد نبھاتے رہے۔کشمیری قوم اپنے اس عظیم رہنما کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ ان کی جدوجہد اور قربانی اہل کشمیر کیلئے مشعل راہ ہے ۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button