محمد شہباز
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی نے کہا ہے کہ صوبہ بلوچستان کے مستونگ دھماکے میں بھارتی خفیہ ایجنسی را ملوث ہے۔انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی را پاکستان میں انتشاراو افتراق کے علاوہ پاکستانی عوام کو براہ راست بم دھماکوں میں قتل کرنے میں ملوث ہے جس کا ثبوت بھارتی نیوی کے حاضر سروس آفیسر کلھبوشن یادیو ہیں ۔
بھارتی خفیہ ایجنسی را سے منسلک سوشل میڈیا اکاونٹ نے مستونگ دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔ بلوچستان کے شہر مستونگ میں ایک خودکش حملہ آور نے عین بارہ ربیع الاول کے دن ایک جلوس کو خود کش دھماکے کا نشانہ بنایا تھا ،جب ہزاروں کی تعداد میں عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک بڑے جلوس کی شکل میں جارہے تھے ۔ الفلاح روڈ پر مدینہ مسجد کے قریب ہونے والے اس بزدلانہ حملے میں 50 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ شیئر کی گئی جس کا عنوان ڈی ایس پی کے بدلے ڈی ایس پی ، اگر آپ ہم پر حملہ کریں گے تو ہر چیز کا جواب دیا جائے گا رکھا گیا ہے۔مستونگ دھماکے میں شہید ہونے والوں میں ڈی ایس پی نواز گشکوری بھی شامل تھے۔یاد رہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع اسلام آباد کے گڈول کوکرناگ علاقے میں13ستمبر کو ایک حملے میں بھارتی پولیس کے ایک ڈی ایس پی ہمایوں مزمل بٹ اور دو بھارتی فوجی آفیسران کرنل منپریت سنگھ اور میجر اشیش دھنچوک سمیت سات بھارتی فوجی ہلاک کیے گئے تھے۔بلوچستاں میں ہونیو الے اس سفاکانہ حملے میں بھارت کا ہاتھ کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان پہلے ہی بھارتی بحریہ کے افسر کلبھوشن یادیو کو پکڑ چکا ہے جسے را نے بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے بھیجا تھا۔حال ہی میں کینیڈا میں خالصتان تحریک کے رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھی را کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا جس کے بعد اب بھارت اور کینیڈا کے درمیان شدید تناو پیدا ہو گیا ہے۔
ماہ ربیع الاول کے مقدس مہینے میں پھر ایکبار مملکت خداداد کا چہرہ لہو لہان کیاگیا۔عاشقان ِرسول کے خون سے بلوچستان کی سرزمین سرخ ہو گئی۔ بادی النظر میں یہ ان پاکستان دشمن عناصر کی کارروائی ہے جو پاکستان کوعدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔جس دہشت گرد گروپ نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے وہ بلا شبہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کا فنڈڈ گروپ ہے۔ بھارت واحد ملک ہے جو پاکستان میں بدامنی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔
مودی نے بھارت میں ایک طرف تو جنگی جنون کو فروغ دیا ہے تو دوسری طرف پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کو منظم طریقے سے بڑھاوا دے رہا ہے۔کلبھوشن یادیوکے انکشافات کے بعد اب یہ حقیقت عیاں ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔پاکستان میں خون کی ارزانی کا ذمہ دار مودی کا بھارت ہے۔اہل پاکستان کو یکسو ہو کر بھارتی سازش کا مقابلہ کرنا ہوگا۔کیونکہ بھارت شروع دن سے پاکستان کا وجود تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔بھارت میں ہندتوا عناصر آج بھی اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھ رہے ہیں۔بھارتی مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا جاچکا ہے۔انہیں ہروز ہجومی تشدد کا نشانہ بناکر ان کا قتل کیا جاتا ہے۔ان کے گھروں کو بلڈوزروں سے ملیا میٹ کرنا مودی کے بھارت میں کوئی معیوب نہیں سمجھا جاتا۔بے قصورمسلمانوں کو مختلف حیلے بہانوں سے پکڑ کر برسوں جیلوں میں سڑایا جاتا ہے،نہ ان کی ضمانتیں ہونے دی جاتی ہیں اور نہ ہی انہیں عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں ایک بھارتی مسلمان اور اس کے بیٹے نے مذہبی ظلم و ستم کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے وطن سے فرار ہو کر پاکستان پہنچے تھے، انہوںنے حکومت پاکستان سے اپیل کی ہے کہ انہیں ملک بدر نہ کریں اور انہیں "کسی بھی پابندی” کے تحت رہنے کی اجازت دی جائے، سعودی عرب سے شائع ہونے والا ایک انگریزی زبان کے روزنامہ اخبارعرب نیوزنے اس پر ایک کہانی بھی لکھی ہے۔عرب نیوز نے باپ اور بیٹے کے سفر کا تفصیل سے احاطہ کیا۔ اخبار نے جو لکھا وہ یہ ہے:
ایک صحافی محمد حسنین، 65، اور ان کے بیٹے اسحاق عامر، 31، جو ایک بھارتی کمپنی میں ٹیکنیشن تھے، جمشید پور بھارت سے تعلق رکھتے ہیں، جو مغربی بنگال کی سرحد سے متصل ریاست جھارکھنڈ میں واقع ایک صنعتی شہر ہے۔ ان کے پاکستان کے سفر میں 5 ستمبر کو نئی دہلی سے متحدہ عرب امارات کی پرواز شامل تھی، جہاں انہوں نے افغانستان کا ویزا حاصل کیا اور پھر کابل اور اس کے بعد قندھار کیلئے اڑان بھری۔ آخر کار انہوں نے ایک ڈرائیور کو 200 ڈالر سے کچھ زیادہ رقم ادا کی تاکہ انہیں سرحد پار پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے چمن تک لے جایا جا سکے، جہاں وہ 14 ستمبر کو پہنچے۔دونوں اب پاکستانی شہر کراچی میں ایک پناہ گاہ میں رہ رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہندو انتہا پسندوں کے بار بار حملوں کی وجہ سے "بے بسی” سے اپنا ملک بھارت چھوڑ دیا۔
حسنین نے کراچی سے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا، "آپ غور کر سکتے ہیں کہ بھارت مسلمانوں کیلئے ایک جیل کی مانند ہے، آپ کھا سکتے ہیں، پی سکتے ہیں اور کپڑے پہن سکتے ہیں لیکن آپ کو کسی بھی قسم کی آزادی نہیں ہے، آپ کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے”۔ پناہ جہاں وہ رہ رہا ہے۔ "اگر آپ کے ساتھ کچھ ناانصافی ہو جائے تو آپ کی بات سننے والا کوئی نہیں، پولیس نہیں سنے گی، عدالتیں نہیں سنیں گی۔”حسنین، جو ایک بھارتی ہفتہ وار رسالہ ‘دی میڈیا پروفائل’ کے ایڈیٹر تھے، کو بھی نشانہ بنایا گیا۔”صحافیوں کیلئے مودی حکومتی پالیسیوں پر تبصرہ کرنا ایک عام سی بات ہے، ہر صحافی ایسا کرتا ہے،” انہوں نے جس اشاعت کیلئے کام کیا اس کی ایک کاپی اٹھاتے ہوئے کہا۔ "ہر صحافی کسی علاقے کے خراب حالات کے بارے میں بات کرتا ہے۔ میں مسلمانوں کو ان کے مذہب کی وجہ سے ہونے والی ناانصافیوں کے بارے میں بھی لکھتا تھا۔ یہ بھارتی حکومت کو ناگوار گزرتا تھا۔محمد حسنین کے بیٹے نے کہا کہ انہیں دائیں بازو کے ہندوئوں نے 2018، 2019 اور 2020 میں تین بار مارا پیٹا، 2021 میں باپ اور بیٹے دونوں کو مارا پیٹا گیا۔
عامر نے اپنے کام کی جگہ پر ہونے والے حملوں کے بارے میں کہا، "میں نے کمپنی میں باضابطہ شکایات درج کرائی، لیکن کوئی ردعمل نہیں ہوا، کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔””اس کے بجائے، ایسا لگتا ہے کہ ردعمل ہمیشہ مجھ پر ہی ہوتا ہے۔ میں نے مار پیٹ برداشت کی، گالی گلوچ سنی، اور یہاں تک کہ پاکستان اور اسلام کے خلاف توہین آمیز نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔ اگر ہم انہیں جواب دیں گے تو ہمیں مارا پیٹا جائے گا اور اگر ہم نہیں دیں گے تو ہمیں سر جھکا کر رہنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم صرف پناہ چاہتے ہیں، ہم کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں۔پاکستانی حکومت اپ جو چاہیں پابندیاں لگا سکتے ہیں، ہمیں جو چاہیں سزا دیں، آپ جو چاہیں کریں، ہمیں کوئی شکایت نہیں ہے۔ ہم صرف اس ملک میں رہنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ میں صرف ایک درخواست کر سکتا ہوں: جہاں 250 ملین لوگ رہ رہے ہیں، براہ کرم مزید دو کیلئے بھی ایک جگہ دیں۔حسنین نے اس بات کی تردید کی کہ وہ اور اس کا بیٹا پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی کے کہنے پر بھارتی ساکھ کو خراب کرنے کیلئے پاکستان میں پناہ لے رہے تھے یا جاسوسی کے مشن پر پاکستان آئے تھے۔حسنین نے کہا کہ میں دونوں دعووں کی تردید کرتا ہوں۔ نہ ہمیں بھارتیوں نے یہاں بھیجا ہے اور نہ ہی پاکستانی ہمیں اپنی سرپرستی میں لائے ہیں۔یہ پوچھے جانے پر کہ انہوں نے بنگلہ دیش کا نہیں بلکہ پاکستان کا انتخاب کیوں کیا، جو ان کے آبائی شہر سے زیادہ قریب ہے اور جہاں انہیں آسانی سے ویزا مل جاتا؟ صحافی نے ڈھاکہ کی انتظامیہ پر نئی دہلی کے اثر و رسوخ کی طرف اشارہ کیا۔”یہ ایسا ہوتا جیسے کڑاہی سے نکل کر آگ میں گرنا،” انہوں نے کہا اگر بھارتی حکومت کسی دن ہماری واپسی کا مطالبہ کرتی تو بنگلہ دیشی ایک سیکنڈ میں ہمیں حوالے کر دیتے۔عامر، جس کے والد کئی برس قبل ان کی ماں سے الگ ہو گئے تھے، نے بھارت سے فرار ہونے سے پہلے اپنی ماں کو بھی نہیں بتایا تھا۔انہوں نے کہا کہ اب جب کہ ہم پاکستان آ چکے ہیں، ہم جس چیز کی امید کرتے ہیں وہ صرف رحم ہے۔ "ہم پناہ مانگتے ہیں۔”