بھارت کو مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ کرنے والوں کو سزا دینی چاہیے: ڈاکٹر اسٹینٹن
واشنگٹن02 مارچ (کے ایم ایس)دنیا کے صف اول کے نسل کشی کے ماہر ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن نے کہا ہے کہ نسل کشی کنونشن کے تحت بھارتی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کو فوری سزا دے جنہوں نے دسمبر 2021میں ہریدواردھرم سنسدمیں مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ کیا۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے واقعات پر بات کرنے کے لیے جینوسائیڈ واچ کے زیر اہتمام تین روزہ عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر اسٹینٹن نے کہا کہ نسل کشی کی سزا دینے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ نسل کشی ہورہی ہو بلکہ نسل کشی کے لیے اکسانے پر بھی جینوسائیڈ کنونشن کے آرٹیکل 3 کا اطلاق ہوتا ہے۔ نسل کشی کے لیے اکسانا بالکل وہی ہے جس کی ہریدوارکے اجتماع میں تبلیغ کی گئی تھی۔ڈاکٹر اسٹینٹن کا اشارہ گزشتہ سال دسمبر میں شمالی بھارت کے شہر ہریدوار میں منعقدہ ایک ہندو مذہبی اجتماع کی طرف تھا جہاں مقررین نے کھل کر مسلمانوں کے قتل عام کا مطالبہ کیا تھا۔ خود ساختہ ہندوپجاری یتی نرسنگھانندکوجس نے اس اجتماع کا اہتمام کیا تھا، گرفتاری کے چند دنوں کے اندر عدالت نے ضمانت دے دی۔ زعفرانی لباس والی ایک خاتون پجارن پوجا پانڈے جس نے نسل کشی کا مطالبہ کیاتھا ابھی تک گرفتارنہیں ہوئی اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کیس درج کیاگیا۔نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کا تصور گزشتہ صدی کے ہولوکاسٹ کے بعد سامنے آیاتھا جس میں ساٹھ لاکھ سے زیادہ یہودی مارے گئے تھے۔ بھارت نے کنونشن کی توثیق کی ہے۔ اس کے باوجودبھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے نسل کشی کے مطالبات پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ان کی حکومت نے نفرت انگیز تقاریر اور مسلمانوں اور عیسائیوں پر ظلم و ستم کے خلاف کارروائی کرنے کے بین الاقوامی مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔ نرسنگھانند اور پانڈے راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ( آر ایس ایس) کے کارکن ہیں جو 96سالہ پرانی ہندو بالادستی کی تحریک ہے اوربھارت کو ایک ہندوریاست میں تبدیل کرنا اور مسلمانوں اور عیسائیوں کو مساوی حقوق سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ ڈاکٹر اسٹینٹن نے کہا کہ قوم پرستی نسل پرستی کی سب سے مہلک شکل ہے یہ سٹیرائڈز نسل پرستی ہے۔انہوں نے کہا کہ نسل کشی کا آغاز لوگوں کوحقیقی قاتلوں کے طور پرپیش کرنے سے ہوتا ہے۔کہ وہ ہمیں مار ڈالیں گے اگر ہم انہیں پہلے نہیں ماریں گے۔ڈاکٹر اسٹینٹن جینوسائیڈ واچ کے بانی صدر ہیں جو امریکہ میں قائم ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جس نے بھات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی وارننگ جاری کی ہے۔ تیس سال پہلے انہوں نے روانڈا میں نسل کشی کی پیشن گوئی کی تھی۔ وہ نسل کشی کے خلاف عالمی اتحاد کے بانی بھی ہیں۔ ڈاکٹر اسٹینٹن نے سوشل میڈیا پرتیز اور مہلک پروپیگنڈا کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہاکہ فیس بک اور واٹس ایپ جو کہ فیس بک کی ملکیت ہے، اب بھارت میں نسل کشی پر اکسانے کے اہم پلیٹ فارم ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہندو اکثریتی قوم پرستی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کو قوم پرستی سے مذہب کو نکالنا چاہیے۔ اسے بھارت کے بانیوں کے سیکولر وژن پر دوبارہ مرکوز کیا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر اسٹینٹن نے کہاکہ اس تحریک کی قیادت بھارت میں ایسے لوگوں کو کرنی چاہیے جو یہ مانتے ہیں کہ بھارت کو ایک سیکولر جمہوریت رہنا چاہیے۔ڈاکٹر اسٹینٹن نے کہا کہ بھارتی تارکین وطن ایک سیکولر بھارتی قوم پرستی کی تحریک میں مدد کر سکتے ہیں۔ ہمیں مودی کی قوم پرستی کی شکست کو پوری دنیا کی پالیسیوں میں سرفہرست رکھنے کے لیے ایک مسلسل تحریک کو منظم کرنا چاہیے۔ اس لیے ہم نے مودی کی قوم پرستی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔