مقبوضہ جموں و کشمیر

مقبوضہ جموں وکشمیر میں صحافیوں کے ساتھ ساتھ شعراءکو بھی خاموش کیاگیا ہے: رپورٹ نیویارک ٹائمز

 

سرینگر 07 ستمبر (کے ایم ایس) امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے مظالم اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ متنازعہ علاقے میں اب شعراءکو بھی خاموش کیاجارہا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق یہ رپورٹ وادی کشمیرکے ایک درجن سے زائد شعراءکے انٹرویوز پر مبنی ہے جنہوں نے کہا کہ بھارتی نگرانی میں اضافے کی وجہ سے ان کے پاس مزاحمتی شاعری لکھنا چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں یاوہ ایسی شاعری بھارتی ایجنٹوں کی نظر وںسے دور جگہوں پر پڑھنے پر مجبورہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جس سے مقبوضہ جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی اوروادی میں اضافی فوجی تعینات کئے گئے،بھارتی فورسز نے مسلم اکثریتی علاقے پر اپنی گرفت مزید سخت کردی ہے۔رپورٹ کے لیے جن شعراءکے انٹرویوز لئے گئے ان میں سے ایک غلام محمد بٹ تھے جو مدہوش بالہامی کے قلمی نام سے لکھتے ہیں۔انہوں نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ اب وہ چھپ کر شاعری پڑھتے اور کمپوز کرتے ہیں کیونکہ بھارتی حکام نے اختلاف رائے رکھنے والوں کی پکڑدھکڑھ تیز کر دی ہے۔شاعر نے بتایا کہ 1990 کی دہائی کے وسط میں جب وادی میں بغاوت اپنے عروج پر تھی ، وہ جدوجہد آزادی میں اپنی جانیں قربان کرنے والوں کے جنازوں پرنظمیں پڑھتے تھے جس پر انہیں جیل بھیج دیا گیا۔جیل میں انہوں نے شاعری لکھی اوروہ ساتھی قیدیوں کو سناتے تھے جس کی پاداش میں حکام انہیں گھسیٹتے تھے اور کلائیوں سے باندھ کر لٹکاتے تھے اور ہائی وولٹیج بجلی کے لیمپوں کے سامنے رکھتے تھے۔ غلام محمد بٹ نے کہاکہ گزشتہ 30 سال میں انہوں نے اس قسم کا دباﺅ کبھی نہیں دیکھا۔ ہر طرف خاموشی ہے گویا خاموشی ہمارے موجودہ بحران کا بہترین علاج ہے۔رپورٹ کے مطابق 2018 میں ان کی رہائش گاہ پر بھارتی فورسز اور مسلح افراد کے درمیان تصادم کے نتیجے میں وہ اپنے گھر اورایک ہزار صفحات پر مشتمل شاعری سے محروم ہو گئے۔انہوں نے کہا اپنے گھرکو شعلوں کی نذر ہوتے ہوئے دیکھنا اپنے جسم کو جلتے ہوئے دیکھنے جیسا ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج وہ اپنی نظموں کو زیادہ تر اپنے پاس رکھتے ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں پولیس نے انہیں کئی بار طلب کیا اور بتایا کہ وہ انتشار پیدا کرنے کی کوشش کر ررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے بڑی حد تک ہماری آوازوں کو دبا دیا ہے لیکن ہمارے دلوں میں آزادی کاجذبہ موجودرہے گا۔ یہ نہیں مرے گا۔
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تین شاعروں نے جن کے انٹرویو ز کئے گئے کہاکہ صحافیوں سے بات کرنے کے بعد ان سے پولیس افسران نے گھنٹوں پوچھ گچھ کی۔ ایک خاتون کشمیری شاعرہ زبیرہ نے کہا کہ ہمیں اس وقت تک سانس لینے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی جب تک کہ ہم قوانین اور حکومت کی خواہشات کے مطابق سانس نہ لیں۔ انہوں نے کہاکہ آوازیںخاموش کردی گئیں ، بولنے اور شکایت کرنے کی آزادی ختم ہوچکی ہے اور ہمارادم گھٹ رہا ہے۔
بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک اعلیٰ رہنما اور مقبوضہ جموںو کشمیر کے سابق نائب وزیر اعلیٰ نرمل سنگھ نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ وادی میں سخت اقدامات کے پیچھے حکام کا مقصداختلاف کو روکنا ہے۔وہ شاعر ہو یا کچھ اور ، بھارت کی علاقائی سالمیت پر سوال اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر آپ آزادی یا پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموںوکشمیر کے صحافیوں کو بھی بھارت سے باہر جانے سے روک دیا گیاہے اور پولیس نے وادی کی صورتحال کے بارے میں ٹویٹ کرنے والے صحافیوں پر انسداد دہشت گردی کے الزامات لگانے کی دھمکی دی ہے۔ بھارتی میڈیاکے ایک ادارے کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2019 کے بعد سے 2300 سے زائد افراد کو بغاوت اور انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور نعرے لگانے یا سوشل میڈیا پر سیاسی پیغامات پوسٹ کرنے جیسی سرگرمیوں کو جرم قرار دیاگیاہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پولیس نے پرامن احتجاج کو بھی روک دیا ہے اور جب رواں سال 5 اگست کومقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے دوسال مکمل ہونے کے موقع پرکشمیری دکانداروں نے اپنی دکانیں نہیں کھولیں تو سادہ کپڑوں میں ملبوس اور لوہے کی سلاخوں اور بلیڈوں سے لیس بھارتی اہلکاروں نے سرینگر میں دکانوں کے تالے توڑ دیے۔پولیس تالے توڑنے والوں کے ساتھ تھی اور انہیں روکنے کے لیے کچھ نہیں کررہی تھی۔ اس طرح کے سنگین واقعات نے کشمیری شاعر ذیشان جے پوری کو ایک نظم لکھنے پر مجبور کیاجس میں موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیاگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک مشہور کشمیری شاعر کا پوتا ذیشان جے پوری 2010 میں اس وقت سے صدمے میں ہے جب آنسو گیس کے ایک گولے سے اس کا 17 سالہ ہمسایہ ماراگیا۔ وہ اپنی اسکول کی درسی کتب سے نفرت کرنے لگا جن میں کشمیر کو ایک خوبصورت سیاحتی مقام کے طور پر پیش کیاگیا ہے۔جے پوری نے کہا کہ اب ہم اپنی شاعری خود یا کچھ قریبی دوستوں کے سامنے پڑھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے گلے دبے ہوئے ہیں کیونکہ حکومت نہیں چاہتی کہ ہم تازہ ہوا میں سانس لیں۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button