بھارت میں مسلمانوں کو منظم امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا ہے،رپورٹ
اسلام آباد 09 اپریل (کے ایم ایس)بھارت میں مسلمانوں کو طویل عرصے سے منظم امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا ہے اور 2014 میں فسطائی نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلم مخالف جذبات میں تیزی آئی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے آج جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بی جے پی بھارت کو مکمل طور پر ایک ہندوملک میں تبدیل کرنے کے لیے ہندوتوا کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور بی جے پی کے دور حکومت میں مسلمانوں، عیسائیوں اور نچلی ذات کے ہندوو¿ں پر ظلم و ستم میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔مسلمان ملک کی سب سے پسماندہ برادریوں میں سے ایک ہیںجنہوں نے برطانوی راج سے بھارت کی آزادی کے بعد سے کئی فرقہ وارانہ فسادات کا سامنا کیا ہے۔ 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام اور 2020 میں دہلی کے مسلم مخالف فسادات بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد کی کچھ واضح مثالیں ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ راجستھان کے علاقے کرولی میںہندوانتہا پسندوں نے حال ہی میں مسلمانوں کے 40 سے زیادہ مکانات کو نذر آتش کیا اور یہ اس طرح کے تشدد کی تازہ ترین مثال ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے تمام بھارتی اداروں میں مسلم دشمنی میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مودی کے بھارت میں مسلمانوں پر حملہ کرنے والوں کو بڑے پیمانے پر معافی دی جارہی ہے۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ نسل کشی کے تشدد کے عالمی ماہرین نے بھی بھارت اور مقبوضہ جموںوکشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے خبر دار کیا ہے۔ کے ایم ایس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ عالمی برادری کو بھارت میں ہندو فاشزم کا نوٹس لینا چاہیے