مضامین

مضمون: کیا ہندوستان میں مسلم مخالف تشدد کے خاتمے کے عالمی مطالبات موثر ہیں؟

حافظ محمد ہارون عباس

ہندوستان میں، سال 2022 مسلمانوں کے لیے کچھ اچھا نہیں رہا۔ نئے سال کا آغاز مسلم خواتین پر "بلی بائی ایپ” کے ذریعے حملے کے ساتھ آن لائن نیلامی کے ساتھ ہوا، جہاں ممتاز خاتون صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لئے ان کی ترمیم شدہ تصاویر کو نیلامی کے لئے پیش کیا گیا۔ بھارت کے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد، ممتاز مصنفین اور دانشوروں کے احتجاج کے بعد ایپ کو ہٹا دیا گیا اور چند ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ تاہم، کہانی وہیں ختم نہیں ہوتی۔
کرناٹک میں حجاب کے مسئلے کو قومی سطح پر لے جایا گیا، جس میں شدت پسند نوجوانوں نے حصہ لیا اور حجاب پہننے والی مسلم لڑکیوں کے خلاف نعرے لگائے۔ بعد ازاں ہائی کورٹ نے مسلم خواتین کے خلاف اپنا فیصلہ جاری کرتے ہوئے انہیں ادارے کے یونیفارم کوڈ پر عمل کرنے کا حکم دیا۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت کے واقعات یہیں نہیں رکے بلکہ سماج دشمن عناصر کو عوام میں مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرنے کے لیے اعتماد دیاگیا، جیسا کہ تریپورہ میں ایک مقامی رہنما کی قیادت میں ایک جلوس نے خاص طور پر مسلم کمیونٹی کے خلاف نعرے لگائے۔ .
اس سال، راماناومی کے موقع پر، ایک دائیں بازو کے ہندو گروپ نے مسلم اکثریتی علاقے سے ایک جلوس کی قیادت کی جب کہ ہجوم نے توہین آمیز گیت گائے اور گالم گلوچ کی۔ یہ سلسلہ بعد میں پتھرا واور گھروں کونذر آتش کرنے تک بڑھ گیا، جوراجستھان، مدھیہ پردیش اور گجرات جیسی ریاستوں میں فرقہ وارانہ فسادات پر منتج ہوا۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے علاقے جہانگیر پوری میں مساجد پر حملوں کے چند واقعات اور بھارتی ریاست بہار میں آر ایس ایس کا پرچم لہرانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ صورت حال ہندوں اور مسلمانوں کے درمیان تصادم تک پہنچ گئی، لیکن گرفتاریاں صرف23 مسلمانوں تک محدود رہیں، بغیر اجازت جلوس کی قیادت کرنے والے ہندو گروپ کے ارکان میں سے کیسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
ایک ٹی وی مباحثے میں بی جے پی کی ترجمان "نوپور شرما” اور بی جے پی کی دہلی یونٹ کے سابق میڈیا سربراہ "نوین جندال” کے "نبی اکرم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلاف نازیبا اور جارحانہ تبصروں کے حالیہ واقعے کے بعد ہندوستان میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ جس کے بعد ٹویٹر پر ہندوستانی مسلمانوں کے اکاونٹس بلاک کئے گئے۔
نوپور شرما اور نوین جندال کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے مسلم کمیونٹی نے احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ دونوں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔ مظاہرین کی جانب سے پتھرا وکے باعث احتجاج پرتشدد ہو گیا جس کے نتیجے میں پولیس اور عوام کے درمیان تصادم ہوا۔ پولیس نے گولی چلائی جس سے دو نوجوان مبشر اور ساحل مارے گئے۔ جب کہ زیادہ تر احتجاجی پرامن تھے۔ رانچی اور الہ آباد میں پرتشدد مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے مبینہ طور پر سرکاری طور پر عہدیداروں سے کہا ہے کہ ‘مجرموں کے خلاف ایسی کارروائی کرکے ایک مثال قائم کریں تاکہ مستقبل میں کوئی جرم نہ کرے یا قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لے’۔
یوپی میں حکام نے پہلے جے این یو کی صدر اور سماجی کارکن "آفرین فاطمہ” کے اہل خانہ کو گرفتار کیا اور ہراساں کیا اور بعد میں بی جے پی رہنماوں کے توہین آمیز ریمارکس کے خلاف الہ آباد میں پرتشدد مظاہرے کا الزام لگاتے ہوئے ان کے گھر کو بلڈوز کیا۔
بھارت میں مودی سرکار کی طرف سے مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کرنے کی جاری مہم کے تناظر میں، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے بھارت بھر میں مذہبی اختلافات سے پیدا ہونے والے کسی بھی تشدد کو روکنے کے لیے اپنے عزم صمیم کا اعادہ کیا۔
سکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے ایک رپورٹر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ گوٹیریس "مذہب کے مکمل احترام پر زور دیتے ہیں۔
امریکہ نے بھی ہندوستانی حکمران جماعت کے عہدیداروں کی طرف سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان ریمارکس کی مذمت کی ہے جس نے مسلم ممالک میں ہنگامہ برپا کر دیا ۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بھی صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ بی جے پی کے دو عہدیداروں کے جارحانہ تبصروں کی مذمت کرتا ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو اپنے بااثر عہدے کا استعمال کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ہندوستان بھر میں مسلم مخالف تشدد کے خلاف آواز اٹھانا چاہئے اور انسانی حقوق اور عالمی امن کے چیمپئن بالخصوص امریکہ کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کے تحفظ کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں جو پہلے ہی دو تلخ حقائق کا سامنا کر رہے ہیں: پہلا "محمد علی جناح” کو غلط ثابت کرنا، جنہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنی باقی زندگی کے لیے حب الوطنی کا ثبوت دینا ہوگا اور ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک کیا جائے گا۔ اور دوسرا مولانا عبدالکلام مرحوم کے خواب کے ساتھ جینا کہ جنہوں نے جمہوری سیکولرازم کے دائرہ کار میں مسلمانوں کی خوشحالی اور عزت کا وعدہ کیا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقوام متحدہ کے سربراہ، امریکی محکمہ خارجہ اور عرب دنیا کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی محض مذمت ان کے مصائب کے خاتمے کے لیے کافی ہو گی؟

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مزید دیکھئے
Close
Back to top button