مضامین

سید علی گیلانی ، جہد مسلسل

shahbazمحمد شہباز
سید علی گیلانی کسی تعارف کے محتاج نہیں اور ان کی زندگی سے متعلق کسی لمبی چوڑی تمہیدکی قطعا ضرورت نہیں،ان کی شخصیت بذات خود ایک تعارف ہے ۔

سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929 کو شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ میں پیدا ہوئے۔ 1950 میں ان کے والدین پڑوسی ضلع بارہمولہ کے قصبہ سوپور کے علاقے ڈورو منتقل ہوئے۔سید علی گیلانی نے اورینٹل کالج لاہور سے ادیب عالم اور کشمیر یونیورسٹی سے ادیب فاضل اور منشی فاضل کی ڈگریاں حاصل کی تھیں۔ 1949 میں ان کا بحیثیت استاد تقرر ہوا اور مستعفی ہونے سے پہلے بارہ برس تک مقبوضہ کشمیر کے مختلف اسکولوں میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔سید علی گیلانی بچپن سے ہی جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کیساتھ وابستہ ہوئے اور پھر زندگی کا بیشتر حصہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہی گزارا،انہوں نے امیر ضلع اور قیم سے لیکر قائم مقام امیر جماعت اسلامی کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔1953 کو وہ جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ وہ پہلی بار 28 اگست 1962 کو گرفتار ہوئے اور 13 مہینے کے بعد جیل سے رہا ہوئے۔ مجموعی طور پر انہوں نے اپنی زندگی کا 14 برس سے زیادہ عرصہ جموں و کشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں گزارا ۔سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر میں پندرہ برس تک اسمبلی کے رکن بھی رہے۔

وہ اسمبلی کے لیے تین بار 1972، 1977 اور 1987 میں حلقہ انتخاب سوپور سے جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔وہ 30 اگست 1989 کو اسمبلی کی رکنیت سے ہمیشہ کیلئے مستعفی ہوئے۔
چونکہ ان کا گھرانہ مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کا بھی سختی سے کار بند تھا لہذا انہیں جہاں دنیاوی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کا موقع میسر آیا وہیں مذہبی رجحانات کی چھاپ ان کی پوری زندگی پر حاوی رہی۔کہتے ہیں کہ ماں کی گود ہی ایک انسان کی شخصیت کو نکھارنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے،یوں سید علی گیلانی کو بھی یہ تربیت میسر رہی۔وہ بیسوں کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔انھوں نے اپنے دور اسیری کی یادداشتیں ایک شہکار کتاب کی صورت میں تحریر کیں جس کا نام "روداد قفس” ہے۔ بزرگ رہنما مختلف جسمانی عوارض میں مبتلا رہے۔ ان کے دل کے ساتھ پیس میکر لگا ہوا تھا۔ ان کا گال بلیڈر اور ایک گردہ نکالا جاچکا تھا جبکہ دوسرے گردے کا بھی تیسرا حصہ آپریشن کر کے نکالا جاچکا تھا۔
مذہب سے لیکر سیاست تک ،انہوں نے اپنا لوہا منوالیا۔جب سیاست پر بات کرتے،تو گویا ایک سیل رواں جاری ہوتا ،اور جب قرآن و حدیث اور سیرت پر گفتگو کرتے،تو جیسے منہ سے پھول جڑتے ۔ان کی زندگی کے جس پہلو پر بھی نظر ڈالی جائے،وہ بلاشبہ اپنی ذات میں ایک ا نجمن تھے۔انہوں نے اپنی زندگی کی بھرپور سیاسی اننگ کھل کر دشمنوں سے بھر پور داد سمیٹی،مسئلہ کشمیر پر بچپن سے لیکر مرتے دم تک ایک ہی نظریئے پر کار بند رہے،کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ نہ صرف غیر قانونی اور غیر آئینی بلکہ ناجائز اور غاصبانہ بھی ہے ،انہیں اپنے مظبوط سیاسی موقف کی بناء پر سخت گیراور شدت پسند کے ناموں سے بھی گردانا جاتا رہا۔ان کی زندگی میں سمجھوتہ نام کی کوئی چیز نہیں تھی،وہ جس بات کو درست اور حق سمجھتے تھے،اس پر ڈٹ جاتے تھے۔
وہ مقبوضہ جموں وکشمیر کا پاکستان سے الحاق کے سب سے بڑے حامی تھے۔ اور اس کا اظہار ڈنکے کی چوٹ پر کرتے رہے ۔1993میں سرینگر میں ایک فوجی بنکر کے سامنے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سید علی گیلانی نے کہا کہ جب وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کی بات کرتے ہیں ،تو اس کی بہت ساری وجوہات ہیں،سرینگر مظفر آباد سڑک شدید بادو باراں کے باوجود کبھی بند نہیں ہوئی۔جب بارشیں برستی ہیں تو ایک ساتھ برستی ہیں،جب ہوائیں چلتی ہیں تو ایک ساتھ چلتی ہیں،چاند کا مطلع ایک ساتھ کا مطلع ہوتا ہے۔ہماری ثقافت،مذہبی روایات،رہن سہن ،بود و باش ،زبان ،لباس،کھانا پینا ایک ہی ہے،ہمارے دریا پاکستان کی طرف بہتے ہیں، لہذا اس تناظر میں سید علی گیلانی کہتے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پاکستان کا جزو لاینفک ہے۔
7اگست 2004ء میں سید علی گیلانی نے اپنی ایک الگ جماعت "تحریک حریت” بنائی تھی اور اس کے سربراہ مقرر ہوئے ۔
29جون 2020 ء کو طبی مسائل کے باعث وہ حریت کانفرنس کی سربراہی سے سبکدوش ہو گئے تھے۔
بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی معروف عالمی مسلم فورم "رابطہ عالم اسلامی” کے بھی رکن تھے۔وہ یہ رکنیت حاصل کرنے والے پہلے کشمیری حریت رہنما ہیں۔ ان سے قبل سید ابو الاعلی مودودی اور سید ابو الحسن علی ندوی جیسی علمی شخصیات برصغیر سے "رابطہ عالم اسلامی” فورم کی رکن رہ چکی ہیں۔ مجاہد آزادی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ علم و ادب سے شغف رکھنے والی شخصیت بھی تھے اور علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے۔
سید علی گیلانی گزشتہ برس یکم ستمبر کو حیدر پورہ سرینگر میں واقع اپنے گھر پر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے،وہ گزشتہ 11 برسوں سے اپنے ہی گھر میں مقید رکھے گئے،ا نہیں تمام بنیادی انسانی حقوق سمیت مذہبی ،سیاسی اور سماجی حقوق سے محروم رکھا گیا ۔وہ کبھی کبھار اپنے گھر کے مرکزی دروازے پر آکر بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں سے یوں مخاطب ہوتے تھے،گیٹ کھولو،تمہاری جمہوریت کا جنازہ نکل چکا ہے۔کیوں بھارتی مظالم کا حصہ بنتے ہو۔بھارت نوازوں کیلئے وہ کسی قسم کا نرم گوشہ نہیں رکھتے تھے اور ببانگ دہل بھارت نوازوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ یہی لوگ کشمیری عوام پر مظالم کے ذمہ دار اور بھارتی قبضے میں کلہاڑی کے دستے کا کردار ادا کرتے ہیں لہذا ان بھارت نوازوں کے ساتھ کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا اور زندگی کی آخری سانس تک وہ اپنے عہد پر قائم رہے۔
فاروق عبداللہ نے ایک موقع پر ایک بھارتی ٹی وی چینل کو انٹریو میں اس بات کا کھل کر اظہار کیا کہ سید علی گیلانی کے ساتھ لاکھ اختلافات اپنی جگہ لیکن ان کے نظر یات کو پیسوں سے نہیں بدلاجاسکتا۔یہ سید علی گیلانی کی ذات کیلئے ایک بھارت نواز کا بہت بڑا Compliment تھا۔ان کی تحریک آزادی کشمیر کیلئے بیش بہا قربانیوں کے بدولت ہی حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں 14اگست 2020 میں پاکستان کے سب بڑے سول ایوارڈ نشان پاکستان سے نوازا گیا۔

تاریخ کا یہ فیصلہ ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جس نے انسانی افکار پر گہرے اثرات و نقوش چھوڑے ہوںاور اپنی زندگی کسی اعلی مقصد کے حصول کیلئے وقف کررکھی ہو اور اپنی قوم کی آزادی کے لیے قربانی دی ہو، نسلوں تک زندہ رہتے ہیں۔سید علی گیلانی اس دنیا سے کوچ توکر گئے ہیں لیکن ان کے خیالات کشمیری نوجوانوں کے لیے آج بھی امید کی کرن ہیں۔
بھارت نے انہیں ایک دہائی سے زائد عرصے تک مسلسل گھرمیں نظربند رکھا لیکن وہ ان سے آزادی اور مزاحمت کی سوچ کو چھیننے میں ناکام رہا۔گیلانی صاحب کا ناتواں جسم مقبوضہ کشمیر میں تعینات دس لاکھ سے زائد قابض بھارتی افواج سے زیادہ مضبوط تھا وہ اپنی طبی موت کے بعد بھی قابض بھارتی افواج کے لیے خوف کی علامت تھے جنہوں نے سید علی گیلانی کی میت کو قبضے میں لیکر کر انکی آخری وصیت کے برعکس زبردستی فوجی محاصرے میں حیدر پورہ قبرستان میں رات کی تاریکی میں ان کی تدفین کی تھی۔سید علی گیلانی نے اپنی بہت سی انقلابی اور نظریاتی تقاریر میں مسئلہ کشمیر کے مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب جموں کی طرح وادی کشمیر میں بھی آبادی کا تناسب ہندئوں کے حق میں تبدیل کیا جائے گا تو بھارت مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کے لئے تیارہو سکتا ہے۔

خدشہ ہے کہ مودی حکومت اپنا نوآبادیاتی منصوبہ مکمل کرنے کے بعد رائے شماری کے لئے تیارہوجائے گی ۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی طرح قائد کشمیر سید علی گیلانی نے بھی ماضی کے واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ہندو کبھی بھی بھارت میں مسلمانوں کے وجود اور مقبوضہ جموں وکشمیرمیں اکثریتی آبادی کے طور پر قبول نہیں کریں گے۔مودی کے اقدامات نے سید علی گیلانی کے نظریات کو درست ثابت کیا ہے۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button