عمر خالد نے بھارتی ذرائع ابلاغ کی حقیقت کو بے نقاب کر دیا
آج بھارت میں سچائی وہ نہیں جو حقیقت ہے بلکہ جو لوگوں تک پہنچتی ہے
نئی دہلی13ستمبر(کے ایم ایس)بھارت میں انسانی حقوق کے ممتاز کارکن عمر خالد نے تہاڑ جیل سے لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ زیادہ تر ہندی اخبارات جن پر 90فیصد سے زیادہ قیدی خبروں کے لئے انحصار کرتے ہیں،تمام صحافتی اقدار ہوا میں اڑاچکے ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق عمر خالد کے خط میںجسے منگل کو میڈیا کے ایک سیکشن نے شائع کیا تھا، لکھا ہے کہ ذرائع ابلاغ نے میری ضمانت کی کارروائی کی بہت چنندہ رپورٹنگ کی۔ جب میرے وکلا ء نے بحث کی تو انہوں نے ہمارے زیادہ تردلائل کو شائع نہیں کیا یا اگر انہوں نے مجھ پرچند دنوں کے لئے بہت زیادہ مہربانی کی تو انہوں نے اسے صفحہ 5یا 6پر ایک چھوٹے سے غیر واضح کالم میں انتہائی غیر اہم سرخی کے ساتھ شائع کیا۔ لیکن سرکاری وکیل کے دلائل کو صفحہ اول پر جگہ دی گئی اوراس انداز میں پیش کی گئیں گویا یہ عدالت کے مشاہدات تھے۔ اور ایسے موقعوں پر انہوں نے اپنی سنسنی خیز سرخیوں کی تکمیل کے لیے میری کچھ تاریک تصاویر بھی ڈھونڈ نکالیں۔ عمر خالد کو آج منگل 13ستمبر 2022کوتہاڑ جیل میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یواے اپی اے کے تحت نظربندی کے دو سال مکمل ہوگئے۔ ان پر دہلی پولیس نے 2020کے شمال مشرقی دہلی کے فسادات میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ عمرخالد نے جس کا مقدمہ ابھی شروع ہونا ہے، اپنے بارے میںشائع ہونے والی خبروں کو زہر آلود قراردیا۔عمر خالد نے کہا کہ ہندی اخبارات جو کچھ کر رہے ہیں اسے کسی بھی صورت میںرپورٹنگ نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے کہاکہ ایک صبح ایک ہندی روزنامے میں اخبار کی سرخی لگی تھی کہ” خالد نے کہا تھابھاشن سے کام نہیں چلے گا، خون بہانا پڑے گا”۔ انہوں نے کہاکہ اخبار نے نہ صرف اس شہ سرخی میں کیے گئے بڑے دعوے کی تصدیق کرنا گوارا نہیں کیا بلکہ اس نے میری تردید شائع کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیںکی۔ عمر خالد نے کہاکہ دو دن بعد اسی اخبار نے پچھلی خبر سے بھی زیادہ سنسنی خیز سرخی لگائی کہ” خالدمسلمانوں کے لیے الگ دیش چاہتا تھا ”۔ انہوں نے کہا مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہنسوں یا روئوں۔ انہوں نے کہاکہ اس سے پہلے ایک موقع پر ایک اور ہندی روزنامے نے دعویٰ کیا کہ میں نے دہلی پولیس کے سامنے دہلی فسادات میں ملوث ہونے اور کردار اداکرنے کااعتراف کر لیا ہے جو مضحکہ خیز تھا۔ عمر خالد نے کہاکہ میں نے عدالت میں دو بار ریکارڈ جمع کرایا ہے کہ پولیس حراست کے دوران میں نے پولیس کو کوئی بیان نہیں دیا اور نہ ہی کسی کاغذ پر دستخط کئے۔ پھر خبر کا ماخذ کیا تھا؟