4ممالک میں منعقدہ خالصتان ریفرنڈم میں 2لاکھ سے زائد سکھوں کی شرکت
پنجاب کو بھارت کے قبضے سے آزاد کرانے اور خودمختار سکھ ریاست کے قیام کا مطالبہ
اسلام آباد 30ستمبر (کے ایم ایس)4 ممالک میں ہونے والے خالصتان ریفرنڈم میں تقریبا 2لاکھ 8ہزارسکھوں نے حصہ لیا جس میں پنجاب کو بھارتی قبضے سے آزاد کرانے اور ایک خودمختار سکھ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق گزشتہ سال اکتوبر سے شروع ہونے والی اس ریفرنڈم مہم کے تحت اب تک برطانیہ، جنیوا، اٹلی اور کینیڈا میں چار ریفرنڈم ہو چکے ہیں جن میں سکھ برادری نے بڑی تعداد میں حصہ لیا۔اس سلسلے میں ریفرنڈم کا تازہ ترین مرحلہ 18ستمبر کو برامپٹن کینیڈا میں منعقد ہوا، جس میں تقریبا 1لاکھ 10ہزارسکھوں نے ایک خودمختار ریاست کے حق میں ووٹ دیا۔پہلا خالصتان ریفرنڈم گزشتہ سال 31اکتوبرکو برطانیہ میں ہوا جس میں 30 ہزار سکھوں نے حصہ لیاتھا۔گزشتہ سال 10دسمبر کو جنیوا میں 6ہزارسے زائد سکھوں نے خودمختار سکھ ریاست کیلئے ووٹ دیا۔اسی طرح کی ایک مشق اٹلی میں 62ہزار سکھوں اور کینیڈا میں تقریبا 1لاکھ 10ہزارسکھوں کی شرکت کے ساتھ منعقد کی گئی۔کینیڈا میں ریفرنڈم کا انعقاد سکھ فار جسٹس نے سکھ رہنما گروپتونت سنگھ پنوں کی قیادت میں پرامن اور جمہوری طریقے سے کیا تھا۔میڈیا سے بات چیت کے دوران گروپتونت سنگھ پنوں نے ایک مجوزہ خالصتان کا نقشہ دکھایا جس کا دارالحکومت شملہ ہو گا۔سکھ ریفرنڈم کے لیے زبردست ٹرن آئوٹ ظاہر کرتا ہے کہ سکھ آزادی کی تحریک ایک مرکزی دھارے کی تحریک بن رہی ہے۔ریفرنڈم کے دوران سکھ برادری نے بھارت مخالف اور خالصتان کے حق میں نعرے لگائے اور خالصتان نواز ریلی میں 2 ہزار سے زائد گاڑیوں نے حصہ لیا۔سکھ فار جسٹس کی جانب سے ریفرنڈم مہم نے بھارت کی طرف سے سکھوں کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے عالمی برادری میں بیداری پیدا کی ہے۔ اس سے بھارت پر سرکاری ریفرنڈم کے لیے مزید دبا بھی بڑھے گا۔اقوام متحدہ کے آرٹیکل جو لوگوں کو حق خود ارادیت کا حق دیتا ہے، کے تحت پرامن اور جمہوری طریقے سے آزادی کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد ہر ایک کا حق ہے۔بھارت نے اپنے مخصوص ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے کینیڈین حکومت کو خالصتان ریفرنڈم کو روکنے کے لیے متعدد درخواستیں کیں تاہم کینیڈا کی حکومت نے سکھ فار جسٹس کو ریفرنڈم کے انعقاد سے روکنے سے انکار کر دیا اور ہندوستانی حکومت کو واضح طور پر مطلع کیا کہ یہ کینیڈا کے قانون کے دائرہ کار کے اندر پرامن اور جمہوری طریقے سے منعقد کیا گیا ہے۔بھارتی وزارت خارجہ نے ریفرنڈم پر سخت اعتراض کیا اور اسے ایک مضحکہ خیز مشق قرار دیا جسے سیاسی طور پر متحرک انتہا پسند عناصر کی حمایت حاصل ہے۔یہاں تک کہ بھارت کے معروف اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز نے بھی سکھ برادری کے پرامن مظاہرے کی کوریج نہیں کی بلکہ ایک جمہوری ملک ہونے اور اظہار رائے کی آزادی کا دعوی کرنے کے باوجود پورے واقعے کی منفی کوریج کی۔مختلف خالصتان ریفرنڈم کی ٹائم لائن اور آزاد خالصتان کے حق میں ووٹ دینے والے سکھوں کی تعداد اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بھارت میں سکھوں کا آزاد ریاست کا مطالبہ آہستہ آہستہ عالمی سطح پر قبول کیا جا رہا ہے۔
ادھر تجزیہ کاروں کے مطابق سکھوں کی آزادی کی تحریک سکھ برادری میں زور پکڑ رہی ہے۔ویڈیو فوٹیجز کلیدی مغربی دارالحکومتوں میں سکھوں کے اندر خالصتان کی حمایت میں بتدریج اضافہ دکھاتی ہیں۔ ماضی قریب میں متعدد ریفرنڈم اور بھاری ووٹوں سے ثابت ہوتا ہے کہ سکھ برادری بھارت میں ایک آزاد وطن چاہتی ہے۔خالصتان موومنٹ درحقیقت بھارت کی طرف سے 1980 کی دہائی سے سکھ برادری پر بے دریغ ظلم و ستم کا نتیجہ ہے۔