مضامین

سید علی گیلانی ایک لازوال کردار

: محمد شہباز

syed ali geelani
shahbazتحریک آزادی کشمیر کے قائد،مزاحمت کار اور آخری دم تک غاصب بھارت کے خلاف برسر پیکار رہنے والے سید علی گیلانی کا آج تیسرایوم شہادت ہے۔وہ 2021 میں آج ہی کے دن 12 برسوں سے بھارتی حراست میں رہ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔بھارتی سفاکوں نے ان کی رہائش گاہ پر دھاوا بول کر ان کی میت بندوق کے بل پر اپنے قبضے میں لیکر بے شرمی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے رات کی تاریکی میں ان کی تدفین کی تھی۔حالانکہ انہوں نے بہت پہلے مزار شہدا سرینگر میں تدفین کی وصیت کی تھی۔سید علی گیلانی کو بھارت کے وحشیانہ جبر کے خلاف مزاحمت کے انمول جذبے کیلئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔سید علی گیلانی کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی اور حق خود ارادیت کا مظہرہیں۔کشمیری عوام کیلئے سید علی گیلانی بھارتی قبضے کے خلاف عوامی مزاحمت کی علامت تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔سید علی گیلانی ایک مشن اور تحریک کا نام ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے کے خاتمے کیلئے برسر پیکار کشمیری عوام ان کے مشن پر گامزن رہ کر بھارت سے آزادی کی منزل ضرورحاصل کریں گے۔سید علی گیلانی نے تنازعہ کشمیر پر اپنے غیر متزلزل موقف کی وجہ سے ایک دہائی سے زائد عرصہ بھارتی جیلوں میں گزارا۔جس پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنٹسی انٹر نیشنل نے انہیں ضمیر کا قیدی قرار دیا تھا۔سید علی گیلانی کشمیری عوام کی بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں واقعی ایک عظیم شخصیت تھے۔سید علی گیلانی مقبوضہ جموں و کشمیر کا پاکستان کیساتھ الحاق کے پرزور حامی اور وکیل تھے۔ان کا مشہور نعرہ ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے ہر خاص و عام کی زبان بن گیا۔14اگست 2020 میں حکومت پاکستان نے انہیں سب سے بڑے سول اعزاز نشان پاکستان سے نوازا جو ان کی جدوجہد کا ریاستی سطح پر اعتراف تھا۔کل جماعتی حریت کانفرنس نے کشمیری عوام سے سید علی گیلانی کو ان کے تیسرے یوم شہادت پر خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے سرینگر میں حیدر پورہ کی طرف بڑے پیمانے پر مارچ کی کال دی ہے۔تاہم قابض بھارتی انتظامیہ نے کشمیری عوام کو مزار شہدا حیدر پور ہ سرینگر جانے سے روکنے کیلئے پورے سرینگر میں سخت پابندیاں عائد کی ہیں۔سید علی گیلانی نے پوری زندگی اپنے عوام اور ان کے حق خودارادیت کیلئے لازوال جدوجہد کی۔سید علی گیلانی اہل کشمیر کو بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد میں حوصلہ بخشتے رہیں گے۔
سید علی گیلانی کسی تعارف کے محتاج اور ان کی زندگی سے متعلق کسی لمبی چوڑی تمہید کی قطعا ضرورت نہیں،ان کی شخصیت بذات خود ایک تعارف ہے ۔سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929 میں شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ میں پیدا ہوئے۔ 1950 میں ان کے والدین پڑوسی ضلع بارہمولہ کے قصبہ سوپور کے زالورہ منتقل ہوئے۔سید علی گیلانی نے اورینٹل کالج لاہور سے ادیب عالم اور کشمیر یونیورسٹی سے ادیب فاضل اور منشی فاضل کی ڈگریاں حاصل کی تھیں۔ 1949 میں ان کا بحیثیت استاد تقرر ہوا اور مستعفی ہونے سے پہلے بارہ برس تک مقبوضہ کشمیر کے مختلف اسکولوں میں اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے۔سید علی گیلانی بچپن سے ہی جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کیساتھ وابستہ ہوئے اور پھر زندگی کا بیشتر حصہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہی گزارا،انہوں نے امیر ضلع اور قیم جماعت سے لیکر قائم مقام امیر جماعت اسلامی کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔1953 میں وہ جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ وہ پہلی مرتبہ 28 اگست 1962 میں گرفتار ہوئے اور 13 مہینے کے بعد جیل سے رہا ہوئے۔ مجموعی طور پر انہوں نے اپنی زندگی کا 14 برس سے زیادہ عرصہ مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں گزارا ۔سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے میں پندرہ برس تک رکن بھی رہے۔ وہ ریاستی اسمبلی کیلئے تین بار 1972، 1977 اور 1987 میں حلقہ انتخاب سوپور سے جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔وہ 30 اگست 1989 میں اسمبلی کی رکنیت سے ہمیشہ کیلئے مستعفی ہوئے۔چونکہ ان کا گھرانہ مروجہ تعلیم کیساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کا بھی سختی سے کار بند تھا لہذا انہیں جہاں دنیاوی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کا موقع میسر آیا وہیں مذہبی رجحانات کی چھاپ ان کی پوری زندگی پر حاوی رہی۔کہتے ہیں کہ ماں کی گود ہی ایک انسان کی شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے،یوں سید علی گیلانی کو بھی یہ تربیت میسر رہی۔وہ بیسوں کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔انھوں نے اپنی دور اسیری کی یاداشتیں ایک شہکار کتاب کی صورت میں تحریر کیں جس کا نام "روداد قفس” ہے۔ بزرگ رہنما مختلف جسمانی عوارض میں بھی مبتلا رہے۔ ان کے دل کیساتھ پیس میکر لگا ہوا تھا۔ ان کا گال بلیڈر اور ایک گردہ نکالا جاچکا تھا جبکہ دوسرے گردے کا بھی تیسرا حصہ آپریشن کر کے نکالا جاچکا تھا۔مذہب سے لیکر سیاست تک ہر میدان میں انہوں نے اپنا لوہا منوالیا۔جب سیاست پر بات کرتے تو گویا ایک سیل رواں جاری ہوتا اور جب قرآن و حدیث اور سیرت پر گفتگو کرتے تو جیسے منہ سے پھول جڑتے ۔ان کی زندگی کے جس پہلو پر بھی نظر ڈالی جائے وہ بلاشبہ اپنی ذات میں ایک ا نجمن تھے۔انہوں نے اپنی زندگی کی بھرپور سیاسی اننگ کھل کر دشمنوں سے بھر پور داد سمیٹی،مسئلہ کشمیر پر بچپن سے لیکر مرتے دم تک ایک ہی نظریئے پر کار بند رہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ نہ صرف غیر قانونی اور غیر آئینی بلکہ ناجائز اور غاصبانہ بھی ہے ،انہیں اپنے مضبوط سیاسی موقف کی بنا پر سخت گیراور شدت پسند کے ناموں سے بھی گردانا جاتا رہا۔ان کی زندگی میں سمجھوتہ نام کی کوئی چیز نہیں تھی،وہ جس بات کو درست اور حق سمجھتے تھے،اس پر ڈٹ جاتے تھے۔
وہ مقبوضہ جموں وکشمیر کا پاکستان سے الحاق کے سب سے بڑے حامی تھے۔ اور اس کا اظہار ڈنکے کی چوٹ پر کرتے رہے ۔1993میں سرینگر میں ایک فوجی بنکر کے سامنے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سید علی گیلانی نے کہا کہ جب وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا پاکستان کیساتھ الحاق کی بات کرتے ہیں ،تو اس کی بہت ساری وجوہات ہیں،سرینگر مظفر آباد سڑک شدید بادو باراں کے باوجود کبھی بند نہیں ہوئی۔جب بارشیں برستی ہیں تو ایک ساتھ برستی ہیں،جب ہوائیں چلتی ہیں تو ایک ساتھ چلتی ہیں،چاند کا مطلع ایک ساتھ کا مطلع ہوتا ہے۔ہماری ثقافت،مذہبی روایات،رہن سہن ،بود و باش ،زبان ،لباس،کھانا پینا ایک ہی ہے،ہمارے دریا پاکستان کی طرف بہتے ہیں، لہذا اس تناظر میں سید علی گیلانی کہتے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پاکستان کا جزو لاینفک ہے۔7اگست 2004 میں سید علی گیلانی نے اپنی ایک الگ جماعت "تحریک حریت” کی بنیاد ڈالی تھی اور وہ ا س کے پہلے سربراہ مقرر ہوئے ۔سید علی گیلانی نے19مارچ 2018 میں اپنی زندگی میں ہی اپنے دست راست جناب محمد اشرف خان صحرائی کو تحریک حریت کی سربراہی منتقل کی تھی،جس کے بعد ان کی زندگی میں صحت کے حوالے سے کافی نشیب و فراز آئے اور وہ صاحب استراحت ہوگئے۔اس سے قبل 2003 میں کل جماعتی حریت کانفرنس تحلیل کی گئی اور ایک نئی حریت کانفرنس معرض وجود میں لائی گئی،جس سے تطہیری عمل کا نام دیا گیا اور پھرسید علی گیلانی تاحیات چیئرمین مقرر کئے گئے۔29جون 2020 میں ناگزیر وجوہات کی بنا پر انہوں نے کل جماعتی حریت کانفرنس سے بھی علیحدگی اختیار کی تھی۔ اس سے قبل انہوں نے سید عبداللہ گیلانی کو آزاد جموں وکشمیر اور بیرونی دنیا میں اپنا نمائندہ بھی مقرر کیا تھا،سید علی گیلانی معروف عالمی اسلامی فورم "رابطہ عالم اسلامی” کے بھی رکن تھے۔وہ یہ رکنیت حاصل کرنے والے پہلے کشمیری حریت رہنما ہیں۔ ان سے قبل سید ابو الاعلی مودودی اور سید ابو الحسن علی ندوی جیسی علمی شخصیات برصغیر سے "رابطہ عالم اسلامی” فورم کی رکن رہ چکی ہیں۔ مجاہد آزادی ہونے کیساتھ ساتھ وہ علم و ادب سے شغف رکھنے والی شخصیت بھی تھے اور علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے۔سید علی گیلانی یکم ستمبر 2021 میں حیدر پورہ سرینگر میں واقع اپنے گھر پر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے،وہ اس دنیا سے جانے سے پہلے 12 برسوں تک اپنے ہی گھر میں مقید رکھے گئے،ا نہیں تمام بنیادی انسانی حقوق سمیت مذہبی ،سیاسی اور سماجی حقوق سے محروم رکھا گیا ۔وہ کبھی کبھار اپنے گھر کے مرکزی دروازے پر آکر بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں سے یوں مخاطب ہوا کرتے تھے،گیٹ کھولو،تمہاری جمہوریت کا جنازہ نکل چکا ہے۔کیوں بھارتی مظالم کا حصہ بنتے ہو۔بھارت نوازوں کیلئے وہ کسی قسم کا نرم گوشہ نہیں رکھتے تھے اور ببانگ دہل بھارت نوازوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ یہی لوگ کشمیری عوام پر مظالم کے ذمہ دار اور بھارتی قبضے میں کلہاڑی کے دستے کا کردار ادا کرتے ہیں لہذا ان بھارت نوازوں کیساتھ کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا اور پھرزندگی کی آخری سانس تک وہ اپنے عہد پر قائم رہے۔
فاروق عبداللہ نے ایک موقع پر ایک بھارتی ٹی وی چینل کو انٹریو میں اس بات کا کھل کر اظہار کیا کہ سید علی گیلانی کیساتھ لاکھ اختلافات اپنی جگہ لیکن ان کے نظر یات کو پیسوں سے نہیں بدلاجاسکتا۔یہ سید علی گیلانی کی ذات کیلئے ایک بھارت نواز کا بہت بڑا Compliment تھا۔ان کی تحریک آزادی کشمیر کیلئے بیش بہا قربانیوں کے بدولت ہی حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں 14اگست 2020 میں پاکستان کے سب بڑے سول ایوارڈ نشان پاکستان سے نوازا گیا۔تاریخ کا یہ فیصلہ ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جس نے انسانی افکار پر گہرے اثرات و نقوش چھوڑے ہوںاور اپنی زندگی کسی اعلی مقصد کے حصول کیلئے وقف کررکھی ہو اور اپنی قوم کی آزادی کیلئے خود کو وقف کیا ہو، نسلوں تک زندہ رہتے ہیں۔سید علی گیلانی اس دنیا سے کوچ توکر گئے ہیں لیکن ان کے خیالات کشمیری نوجوانوں کیلئے آج بھی امید کی کرن ہیں۔ بھارت نے انہیں ایک دہائی سے زائد عرصے تک مسلسل گھرمیں خانہ نظربند رکھا لیکن وہ ان سے آزادی اور مزاحمت کی سوچ کو چھیننے میں ناکام رہا۔گیلانی صاحب کا ناتواں جسم مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعینات دس لاکھ سے زائد قابض بھارتی افواج سے زیادہ مضبوط تھا وہ اپنی موت کے بعد بھی قابض بھارتی افواج کیلئے خوف کی علامت تھے جنہوں نے بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سید علی گیلانی کی میت کو قبضے میں لیکر کر انکی آخری وصیت کے برعکس زبردستی فوجی محاصرے میں حیدر پورہ قبرستان میں رات کی تاریکی میں ان کی تدفین کی تھی۔سید علی گیلانی نے اپنی بہت سی انقلابی اور نظریاتی تقاریر میں مسئلہ کشمیر کے مستقبل کے بارے میں پیشن گوئیاں کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب جموں کی طرح وادی کشمیر میں بھی آبادی کا تناسب ہندوئوں کے حق میں تبدیل کیا جائے گا تو بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں رائے شماری کیلئے تیارہو سکتا ہے۔ خدشہ ہے کہ مودی حکومت اپنا نوآبادیاتی منصوبہ مکمل کرنے کے بعد رائے شماری کرانے پر آمادگی ظاہر کرے گی۔ 05اگست 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی اور 4500000 لاکھ غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل فراہم کرنا اسی کی طرف اشارہ ہے جس کی نشاندہی جناب سید اپنی زندگی کے آخری ایام میں کرچکے ہیں۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی طرح قائد کشمیر سید علی گیلانی نے بھی ماضی کے واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ہندو کبھی بھی بھارت میں مسلمانوں کے وجود اور مقبوضہ جموں وکشمیرمیں اکثریتی آبادی کے طور پر قبول نہیں کریں گے۔مودی کے اقدامات نے سید علی گیلانی کے نظریات کو درست ثابت کیا ہے۔البتہ اخری ایام میں انہیں روحانی ا ور جسمانی تکلیف پہنچائی گئی۔جن سے وہ بڑے مضمحل ہوئے اور جس کا مقدمہ ضرور اللہ کی عدالت میں دائر ہوگا۔ پھر نہ جانے کون کون اس کی زد میں آئیں گے۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button