امن کو مسلط نہیں کیا جا سکتا بلکہ لوگوں کی رضامندی سے قائم کیا جا سکتا ہے: میر واعظ
سرینگر: غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے بامعنی مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق میرواعظ نے ایک بھارتی اخبار” دی ہندو ”کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات مسئلہ کشمیر کے حل کے عمل کی جگہ نہیں لے سکتے اور حریت کانفرنس ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر بات چیت کی حمایت کرے گی۔ حریت رہنما نے علاقے کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کشمیر ایک سیاسی اور انسانی مسئلہ ہے جو بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان منقسم ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا بھارت کشمیر پر پاکستان کے ساتھ گزشتہ دو طرفہ معاہدوں سے دستبردار ہوسکتا ہے اور کیا چین پیچھے ہٹ جائے گا۔میرواعظ نے بھارت کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ حریت اب کشمیر میں موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ فورم لوگوں کے جذبات اور خواہشات کی نمائندگی کرتا ہے۔انہوں نے کہاکہ 2017میں پکڑ دھکڑ شروع کی گئی تھی اور تمام سینئر حریت رہنمائوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا تھا اور سیاسی رہنما ہونے کے باوجود ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمات درج کئے گئے۔ 2019سے قبل گرفتاریوں کا ایک اورسلسلہ شروع کیاگیا اور حریت کارکنوں اور ارکان کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا۔ اگست 2019میں مزید سخت کریک ڈائون کیاگیا اور نچلے درجے کے ارکان کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور مجھے گھر میں نظر بند کر دیا گیا اوریہ سب ابھی تک جیلوں میں ہیں۔ حریت کانفرنس کی بیشتر اکائیوں پر یو اے پی اے کے تحت پابندی لگائی گئی ہے ۔ فطری طور پر ان ظالمانہ اقدامات کی وجہ سے حریت اتنی مضبوط نہیں ہوگی جتنی کہ 2019سے پہلے تھی۔ لیکن لوگوں کا جذبہ حریت بالکل ویسا ہی ہے جیسا 2019سے پہلے تھا۔ لوگوں کو قید کیا جا سکتا ہے ، جذبے کو نہیں اور جب تک یہ جذبہ موجود ہے حریت کانفرنس موجود ہے۔میر واعظ نے کہاکہ ہزاروں نوجوان جیلوں میں پڑے ہیں، قیادت سلاخوں کے پیچھے ہے، مقامی لوگوں کو سرکاری ملازمتوں سے برطرف کیاجارہاہے، حکومتی احکامات پر لوگوں کی جائیدادیں ضبط کی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری زمینیں، نوکریاں اور وسائل باہر کے لوگوں کے حوالے کیے جارہے ہیں۔ مقامی پریس اور آزادی اظہار پر مکمل پابندی ہے۔جموں و کشمیر میں بنیادی حقوق اور آزادیوںکو سلب کرکے اسے امن اور نارملسی قرار دینا زمینی حقائق کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہاکہ امن کو مسلط نہیں کیا جا سکتا بلکہ لوگوں کی رضامندی سے قائم کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ان اقدامات سے جس چیز کی عکاسی ہوتی ہے وہ ڈرانے دھمکانے اور بے اختیار کرنے کی پالیسی ہے جو ایک غیر پائیدار عمل ہے۔