بھارت 2018سے” انتخابی آمریت” والا ملک بن چکا ہے: رپورٹ
نئی دہلی:وی ڈیم انسٹی ٹیوٹ کی ”ڈیموکریسی وننگ اینڈ لوزنگ ایٹ دی بیلٹ” کے عنوان سے2024کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023میں بھارت ایسے 10 ممالک میں شامل رہا جہاں تاناشاہی یا آمرانہ نظام حکومت ہے۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق رپور ٹ میں کہاگیا ہے کہ مختلف عناصر میں گرتے اسکور کے ساتھ بھارت اب بھی ایک انتخابی آمریت (الیکٹورل آٹوکریسی)والا ملک بنا ہوا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت2018میں انتخابی آمریت میں شامل ہو گیا اور 2023کے آخر تک اسی زمرے میں موجود رہا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس گروپ کے دس میں سے آٹھ ممالک مطلق العنانیت کے آغاز سے پہلے جمہوریت پسند تھے۔ ان 8میں سے 6ممالک کوموروس، ہنگری، بھارت، ماریشس، نکاراگوا اور سربیا میں جمہوریت کا خاتمہ ہوگیا۔ 2023میں صرف یونان اور پولینڈ ہی جمہوری ممالک بنے رہے۔ جمہوریت کے خاتمے کی یہ رفتار ایک حالیہ تحقیق سے مماثلت رکھتی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ 80فیصد جمہوریتیں اس وقت منہدم ہو جاتی ہیں جب وہ مطلق العنانیت کی جانب بڑھنے لگتی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران بھارت میں آمریت کے عمل کو باضابطہ دستاویزی شکل دے دی گئی ہے جس میں اظہار رائے کی آزادی میں بتدریج لیکن خاطر خواہ گراوٹ، میڈیا کی آزادی پر سمجھوتہ، سوشل میڈیا پر کریک ڈائون، حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو ہراساں کرنا، سول سوسائٹی پر حملے اور اپوزیشن کو ڈرانا اور دھمکانا شامل ہے۔ مثال کے طور پر وزیر اعظم مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی نے ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے بغاوت، ہتک عزت اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کا استعمال کیا ہے۔ بی جے پی حکومت نے 2019میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون میں ترمیم کرکے سیکولرازم کے تئیں آئین کے عزم کو کمزور کردیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی کی زیرقیادت بھارتی حکومت مذہبی حقوق کی آزادی کا بھی استحصال کر رہی ہے۔ سیاسی مخالفین اور حکومتی پالیسیوں کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرانے کے ساتھ ساتھ اکیڈمک میدان میں اختلاف رائے کو دبانے کا رواج اب عام ہو چکا ہے۔اس سے قبل سال 2022کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت 10سرفہرست آمرانہ ممالک میں شامل ہے اور یہاں کے حالات مزید خراب ہوں گے۔ سال 2021کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2014میں بھارت میں مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت کے آنے کے بعد سے اور ہندو قوم پرست ایجنڈے کو فروغ دینے کی وجہ سے جمہوریت کی سطح میں مزید گراوٹ آئی ہے۔