اجمیر درگاہ کے سروے کا مطالبہ بھارت کے تہذیبی ورثے پر نظریاتی حملہ ہے ، سابق بھارتی بیوروکریٹس
نئی دلی: بھارت میں سابق بیورو کریٹس اور سفارتکاروں کے ایک گروپ نے اجمیر کی معروف درگاہ خواجہ معین الدین چشتی کے سروے کے ہند انتہا پسندوں کے مطالبے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس حوالے سے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط ارسال کیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق نئی دلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، سابق وائس چیف آف آرمی سٹاف لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ اور آر بی آئی کے سابق ڈپٹی گورنر روی سیرا گپتا سمیت دیگر اہم شخصیات نے خط میں درگاہ کے سروے کو غیر قانونی اور انتہائی غلط قرار دیتے ہوئے اسے بھارت کے تہذیبی ورثے پر ایک نظریاتی حملہ قرار دیا۔ انہوںنے وزیر اعظم سے اس معاملے میں فوری مداخلت کا مطالبہ کیاہے۔ سابق افسران نے لکھا”یہ ناقابل فہم ہے کہ 12صدی کے صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی ، جو رواداری اور اہم آہنگی کے علمبردار تھے ، کسی مندر کونقصان پہنچا سکتے تھے۔ خطہ میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ دہائی کے دوران مذہبی تعلقات خصوصاً ہندو اور مسلم برادریوں کے درمیا ن کشیدگی بڑھی ہے جس نے اقلیتوں کو بے چینی اور عدم تحفظ میں مبتلا کر دیا ہے۔ انہوںنے لکھا کہ گزشتہ سالوں میں گائے کے گوشت کے الزام پر مسلمانوں کو ہراساں ، انہیں پیٹ پیٹ کر قتل کرنے کے واقعات تواتر کے ساتھ سامنے آئے ہیں ،حالیہ دنوں میں مسلم کاروباروں کے بائیکاٹ ، کرائے پر مکان نہ دینے اور مکانوں کو مسمار کرنے کی کارروائیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ سابق سفارتکاروں نے وزیر اعظم سے اپیل کی کہ وہ تمام ریاستی حکومتوں کو آئین اور قانون کی پاسداری یقینی بنانے کی ہدایت کریں ۔
یاد رہے کہ 27نومبر کو اجمیر کی ایک سول عدالت نے ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا کی ایک درخواست پر سماعت کرتے ہوئے درگاہ کمیٹی ، مرکزی وزارت اقلیتی امور محکمہ آثار قدیمہ کو نوٹس جاری کیے ہیں ۔ ہندو سینا نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا ہے کہ اجمیر کی درگاہ دراصل ایک شیو مندر تھی۔