مقبوضہ کشمیر:29برس گزرنے کے باوجود لوگوں کے ذہنوں میں سوپور قتل عام کی یادیں آج بھی تازہ
سرینگر06جنوری(کے ایم ایس)
مقبوضہ کشمیر میں 6جنوری 1993ء کو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں سوپور میں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کے سانحہ کو29برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس کی تلخ یادیں لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی تازہ ہیں۔
کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق 1993میں اس دن سوپور میں ادھا دھند گولیاں برسار کر 60 سے زائد بے گناہ کشمیریوں کو شہید اور رہائشی مکانات اوردکانوں سمیت 350 سے زیادہ عمارتوں کو نذرآتش کیاتھا۔متاثرہ خاندان آج بھی انصاف کے منتظر ہیں جبکہ ان کے پیاروں کے قاتل بھارتی فوجی آزاد گھوم رہے ہیں۔ ایک دوکاندار غلام رسول گنائی نے جو اس واقعے کا عینی شاہد ہے کہا کہ فورسز اہلکار آپے سے باہر ہوگئے اور نہتے شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کی اورتحصیل آفس سے مرکزی چوک تمام بازار کو نذر آتش کردیا۔انہوں نے کہا کہ شہید ہونے والے شہریوں میں زیادہ تر کو زندہ جلادیا گیا۔انہوں نے کہاکہ بھارتی فورسز نے ایک ڈرائیور کو گاڑی سے نیچے اتارکر مسافروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی جس سے موقع پر ہی 20مسافر شہید ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فورسز اہلکاروں نے بعد میں مکانوں اوردکانوں سمیت ارد گرد کی عمارتوں پر گن پائوڈر اور پٹرول چھڑک کر آگ لگادی۔ شالپورہ، شاہ آباد، مسلم پیر، کرالہ ٹینگ اور آرمپورہ سمیت پانچ علاقوں میں75رہائشی مکانوں سمیت400سے زائد عمارتوں کو نذر آتش کردیاگیاجن میں ویمن ڈگری کالج اور صمد ٹاکیز جیسی تاریخی عماتیں بھی شامل تھیں۔ شالہ خاندان کے ایک رکن نے کہاکہ ہمارے خاندان کے پندرہ سالہ محمد اشرف شالہ، غلام رسول شالہ، سجاد احمد شالہ اور بشیر احمد شالہ سمیت چار افرادکو شہید کیاگیا۔ انہوں نے کہاکہ قتل عام سے ایک دن قبل مرکزی چوک کے نزدیک ہمارا پھلوں سے لدا ہوا یک ٹرک ڈرین میں پھنس گیاتھااور بی ایس ایف کی طرف سے فائرنگ شروع ہونے کے بعد خاندان کے چار افراد ایک دوکان میںچھپ گئے تھے ۔ فورسز اہلکاروں نے دکان میں گھس کر چاروں افراد کو شہید کردیا۔45سالہ طارق احمد کنجوال نے جواس وقت بیس سال کا تھا اورواقعے کا عینی گواہ ہے ،کہا کہ ایک دکان میں ایک شخص کی جلتی ہوئی تصویر مجھے ہمیشہ پریشان کرتی رہے گی ۔ انہوں نے کہاکہ مجھے یاد ہے کہ اس کا سر شعلوں میں تھا اوربی ایس ایف افسر اپنے سپاہیوں سے کہہ رہا تھا کہ اسکو گولی مت مارنا کیونکہ وہ بہت جلد خود مرجائے گا۔ طارق کو یہ بھی یاد ہے کہ کس طرح شاہین سٹوڈیو کے مالک شاہین اور اس کے اسسٹنٹ کو دکان کے اندر زندہ جلادیا گیا۔ ٹائم میگزین میں سوپور قتل عام پر ”Blood Tide Rising”کے زیر عنوان ایک رپورٹ بھی شائع ہوئی تھی۔