پورا بھارت اس وقت ہند و انتہا پسندی اور شر انگیزی سے جوجھ رہا ہے۔بھارتی مسلمان نہ جائے رفتن نہ پائے مانند کے مصداق اپنی اور ہزاروں برسوں پر محیط اپنی دینی ثقافت و اقدار کی حفاظت کی جدوجہد میں سر دھڑ کی بازی لگانے میں مصروف عمل ہیں۔ابھی 24 نومبر کو سنبھل اتر پردیش جہاں چار صدیوں قبل مغل دور حکومت کے ابتدائی ایام جب بابر مسند اقتدار پر براجمان تھے،کی جانب سے تعمیر کی جانے والی شاہی جامع مسجد کے باہر یوگی آدتیہ ناتھ کی پولیس کے ہاتھوں چھ مسلمان نوجوانوں کا خون خشک بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک اور بھارتی ریاست راجستھان میں برصغیر کی مشہور خواجہ اجمیر شریف کی درگاہ کے نیچے مندر تلاش کرنے کی کوشش زور و شور جاری ہے۔ حالانکہ ہر مکتبہ فکر ،مذہب اور فرقے کے لوگ مذکورہ درگاہ پر بلاروک ٹوک آتے ہیں،حتی کہ بھارتی حکمران بھی درگاہ اجمیر شریف کا وقتا فوقتا دورہ کرتے رہے،جس کا مقصد بھارتی سیکولرازم کا پرچار کرنا تھا۔گوکہ بھارتی سیکولر ازم کی موت بہت پہلے واقع ہوچکی تھی اور ہاتھی کے دانت کھانے کے اور اور دکھانے کے اور کے مترادف،ہر ایک حکمران جماعت نے بھارتی مسلمانوں کا ووٹ بینک کے نام پر استحصال کیا ہے۔البتہ یہ سارے معاملات 2014 سے قبل بھارت میں خوش نما لگ رہے تھے،مگر جونہی 2014 میں نریندرا مودی بھارتی راج سنگھاسن پر فائز ہوئے،حالات و واقعات نے 90 ڈگری پر آنگڑائی لی اور حالات ایک ایسا موڑ مڑنے لگے کہ سب کچھ بدل گیا۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولرازم کابرسوں پرمحیط بت منٹوں میں زمین بوس ہوگیا۔پورے بھارت میں قائم لاکھوں مساجد، مدارس،درگاہیں،خانقاہیں اور مزارت ایکدم بی جے پی کے ریڈار پر آگئیں،ہر مسجد،درگاہ،خانقاہ اور مدرسے کے نیچے مندر تلاش کیے جانے لگے۔06 دسمبر1992 میں تاریخی بابری مسجد کی ہندوتوا انتہاپسندوں کے ہاتھوں شہادت اور پھر 2019 میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہندوتوا انتہاپسندوں کے حوصلوں کیلئے تریاق ثابت ہوا اور پھر چل سو چل متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد،بنارس کی گیان واپی مسجد اور دوسری مساجد کے نیچے سے پے در پے مندر وں کی تلاش شروع کی گئی۔حالانکہ 1991 میں مذہبی مقامات سے متعلق ایکٹ میں واضح احکامات ہیں کہ مذہبی مقامات کیساتھ نہیں چھیڑا جائے گا،جو جہاں اور جس حالت میں ہیں،انہیں اسی حالت میں رہنے دیا جائے گا۔ مگر کیا کریں کہ مودی اور اس کی بی جے پی جو کہ آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لے چکی ہے ، آئین و قانون کی تکریم سے یکسر نابلد اور جہاں مسلمانوں کے حقوق،ان کے دینی احکامات اور مقدسات کی بات ہو،بی جے پی اور آر ایس ایس کا خون کھولا جاتا ہے۔ورنہ درگاہ اجمیر شریف پر وہ اپنی ناپاک نظریں نہ گھاڑتے۔اب بی جے پی اور آر ایس ایس رکنے والی نہیں ہیں۔ظاہر ہے جب بھارتی سپریم کورٹ سے لیکر نچلی عدالتیں ان کے خاکوں میں رنگ بھرنے میں پیش پیش ہوں،وہاں خواجہ اجمیر نگر ی کی درگاہ کہاں محفوظ رہیں گی۔البتہ درگاہ اجمیر شریف پر ہندو توا انتہاپسندوں کی جانب سے دعوے نے پورے بھارت میں بالعموم اور بھارتی مسلمانوں میں باالخصوص جہاں اضطراب پیدا کیا ہے وہیں یہ مسلم دشمن کاروائیاں اب مسلمانوں کے دلوں میں اپنے دینی اقدار کا تحفظ کرنے کی انگڑیاں بڑی شدت کیساتھ مچلنے لگی ہیں ،جس کا اظہار بیرسٹر اسد الدین اویسی کی حالیہ مختصر مگر جامع اور مدلل تقریر سے ہوتا ہے، جس میں وہ بھارتی مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے دہائیاں دیتے نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں تم کب جاگو گے؟کیا جب تمہاری ساری مساجد،درگاہوں،خانقاہوں اور مدارس تم سے چھین لیے جائیں گے؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اٹھو اور اپنی مساجد و دینی مقدسات کا تحفظ کرسکیں؟ روز محشر اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دیں گے۔
اسد الدین اویسی کے یہ سوالات نہ صرف بروقت اور اپنے اندر معنی سے بھرپور ہیں بلکہ بھارتی مسلمانوں کی مصلحت کوشی پر کاری ضرب بھی ہیں کہ وہ یہ ساری صورتحال ٹھنڈے پیٹوں برداشت کررہے ہیں۔اس صورتحال یا خاموشی نے بھارتی مسلمانوں کو عملا دیوار کیساتھ لگایا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کی حرص اور ہوس بڑھتی ہی جارہی ہے اور انہیں لگام دینے والا بھی کوئی نہیں ہے بلکہ جنہوں نے لگام دینی تھی وہ سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا سامان کررہے ہیں۔ایسے میں بھارتی مسلمان اگر خواب خرگوش میں پڑے رہے تو ان کی نسلی تطہیر زیادہ دور نہیں ہے۔جس کی پیشن گوئی نسل کشی سے متعلق عالمی تنظیم جینو سائیڈ واچ کے سربراہ پروفیسر گریگوری سٹینٹن بہت پہلے کرچکے ہیں بلکہ وہ یہ تک کہہ چکے ہیں کہ اگر عالمی برادری نے مودی کو لگام نہ دی تو بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی ان کے دروازوں پر دستک دے چکی ہے۔کیونکہ آر ایس ایس جو ہٹلر کی پیروکار ہے بھارتی مسلمانوں کو سرے عام پاکستان چلے جانے اور انہیں گھس بیٹھیے کہہ کر پکارتی ہے، بھارت کو مسلمانوں سے پاک کرنے کی جستجو میں ہے۔دوسرا مودی جو کہ فسطائیت کی پیداوار ہے ان کا آخری دور اقتدار ہے۔وہ بھی ہندوتوا طاقتوں کو خوش کرنے میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔2002 میں گجرات مسلم کش فسادات کون ذی حس بھول سکتا ہے جب مودی جو گجرات کا وزیر اعلی تھا، تو ہزاروں مسلمانوں کا تہیہ تیغ کیا گیا ۔حاملہ مسلم خواتین کے پیٹ چاک کرکے بچوں کو زندہ آگ میں جلایا گیا ۔جس پر مودی کو مودی میلاسوچ کے نام سے تعبیر کیا جانے لگا۔جب مسلمانوں کا وجود مودی جیسے بھارتی وزیر اعظم کی آنکھوں میں بڑی شدت کیساتھ کھٹک رہا ہو تو مودی اپنے آخری دور اقتدار کو یونہی اور آسانی سے جانے نہیں دے گا ۔
فروری 2020 میں دہلی مسلم کش فسادات میں 53 مسلمانوں کا پولیس اور ریاستی انتظامیہ کی موجودگی میں قتل تو کل کی بات ہے جب مسلمانوں نے متنازعہ شہریت ترمیمی بل کے خلاف بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا تھا ۔جس کے نتیجے میں دہلی مسلم کش فسادات کرواکر ان سے انتقام لیا گیا۔ سابق بھارتی چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی گیان واپی مسجد کا سروے