کانگریسی رہنمائوں کے حربے اور مہاراجہ کا نام نہاد الحاق
(پیرزادہ مدثر شفیع جیلانی)
کانگریس نے برصغیر کی تقسیم سے بہت پہلے جموںوکشمیر کے سرسبز و شاداب اور آبی وسائل سے مالا مال خطے پر اپنی مکارانہ نظریں گاڑھ رکھی تھیں۔ کانگریس کے رہنمائوں کو جب یہ ادراک ہو گیا کہ پاکستان کے قیام کو روکنا اب ان کے بس میں نہیں تو انہوں نے کشمیر کے حسین خطے سے اُسے محروم کرنے کیلئے سازشوں کے جال بننا شروع کردیے۔ کانگریسی رہنماپاکستان کو ایک بے حد کمزور ملک کے طور پر وجود میں آتے دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے انگریز کے ساتھ ساز باز کر کے پنجاب کے کئی مسلم اکثریتی علاقے بھارت میں شامل کروا لیے جو تقسیم برصغیر کے اصول کے تحت یقینی طورپر پاکستان کا حصہ بنناتھے۔ ان علاقوں کو ہڑپ کرنے کا مقصد جموں وکشمیر تک پہنچنے کیلئے زمینی راستہ ہموار کرنا تھا۔ ۔ برطانوی نوآبادیاتی تسلط سے بھارت کو آزاد ی دلانے والے پنڈٹ جواہر لال نہرواور سردارپٹیل جیسے شاطر کانگریسی رہنما بعد میں برطانیہ سے بھی بڑے نوآبادی ذہنیت کے مالک ثابت ہوئے ۔انہوں نے نہ صرف جموں وکشمیر کی واضح مسلم اکثریتی ریاست پر قبضہ جما لیا بلکہ جونا گڑھ اورحیدر آباد کی ریاستوں پر بھی فوج کشی کی۔ کانگریسی رہنمائوںنے ایک طویل جدوجہد کے بعد برطانوی سامراج سے چھٹکارہ پایا تھا لہذانہیں کسی قوم کی خواہشات پامال کرنے اور اسکی آزادی چھننے کا خیال تک نہیں آنا چاہیے تھے لیکن کشمیر پر قبضہ جما کر انہوں نے اپنی مکروہ ذہنیت ، بے اصولی اور مکاری کا بھر پور ثبوت دیا۔انہوں نے کشمیر پر فوج کشی کر کے نہ صرف کشمیریوں کو غلام بنا لیا بلکہ پاکستان کے ساتھ ایک مستقل کشیدگی کا راستہ ہموار کیا اور پورے خطے کاامن بھی دائو پر لگا دیا۔ پنڈت نہرو کشمیر کو ہتھیانے کی سازشوں میں تو پیش پیش تھا ہی ، موہن داس گاندھی اور سرپٹیل بھی اس حوالے سے انتہائی سر گرم رہے ۔ یہ سب اس وقت کے کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کو اپنے دام میں لانے کی بھر پور تک ودو میں لگے رہے۔ گاندھی نے یکم تا چار اگست 1947کو کشمیر کا دورہ کیا۔ انکا یہ دورہ دراصل مہاراجہ پر بھارت کے ساتھ الحاق کیلئے دبائو بڑھانے کا ایک حربہ تھا۔ سردار پٹیل نے 3 جولائی 1947کو مہاراجہ ہری سنگھ اور انکے وزیر اعظم رام چند کے نام ایک خط میں بڑے ہی شاطرانہ انداز سے لکھا کہ وہ ایک مخلص دوست اور جموںوکشمیر کے ایک اچھے خیر خواہ کے طور پر آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ ملنا سود مند رہے گا۔ غرض کانگریس کے یہ سارے رہنما مہاراجہ کو بھارت کے ساتھ الحاق کیلئے راضی کرنے کی بھر پور کوششوں میں لگے رہے ۔ کہا جاتاہے کہ مہاراجہ کا وزیر اعظم رام چند کاک بھارت کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا حامی تھا لہذا پنڈت نہرو نے سترہ جون 1947 کو گورنر جنرل مائونٹ بیٹن کو ایک خط لکھا جس میں کاک کو انکے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ۔ مہاتما گاندھی نے بھی یکم اگست 1947 کو اپنے دورہ کشمیر کے دوران مہاراجہ کے ساتھ ملاقات میں رام چند کو ہٹانے کی بات کی تھی۔ چناچہ کاک کو گیارہ اگست 1947 کو برطرف کر دیا گیا ۔ ان کی جگہ مہر چند مہاجن کو جموںوکشمیر کا وزیر اعظم بنایا گیا جنہوں نے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کے کانگریسی رہنمائوں کے مذموم منصوبے کوعملی جامہ پہنایا ۔گاندھی، نہرو اور سردار پٹیل بالاخر اپنی مذموم سازش میں کامیاب ہو گئے ۔ مہاراجہ نے 26اکتوبر کو بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق رچا لیا، 27اکتوبر کو بھارتی فوج سرینگر کے ہوائی اڈے پر اتری اور یوں کشمیریوں کے ابتلا کا ایک نیا دور شروع ہوا جو اپنے اندر بھارتی مکرو فریب اور ظلم و ستم کا ایک درد ناک باب سمیٹے ہوئے ہے۔ کانگریس ہندو ئوں کے بارے میں مشہور زمانہ مقولے ” بغل میں چھری، منہ میں رام رام”کا عملی نمونہ ثابت ہوئی۔ اس نے مکاری، دھوکہ دہی ، چالبازی اور فریب کاری کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر قبضے میں لے لیا ۔ پنڈت نہرو نے اپنے خاص دوست اور بھارتی آلہ کار شیخ عبداللہ کی سربراہی میں اکتوبر 1947میں کشمیر میں ایک ہنگامی حکومت قائم کرائی اوران کی حکمرانی کو جواز فراہم کرنے کیلئے 1951میں کشمیر میں فرا ڈالیکشن کرائے ۔ نہرو ایک طرف یہ وعدہ کرتا پھر رہا تھا کہ کشمیرمیں حالات بہتر ہوتے ہی رائے شماری کرائی جائے گی لیکن دوسری طرف ان انتخابات کو رائے شماری کے متبادل کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتا رہا جس سے اسکی بے اصولی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اب میں بھارت کی اس نام نہاد سیاسی پارٹی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو پورے خطے میں ہندو تہذیب وتمدن کا غلبہ چاہتی ہے۔ یہ پارٹی بھی کانگریس کی طرح نوآبادیاتی اور توسیع پسندانہ ذہنیت تو رکھتی ہی ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ وہ ہندو ئوں کے سوا کسی دوسری قوم خاص طورپر مسلمانوں کا وجود برداشت کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں۔”بھارتیہ جنتا پارٹی ” نام کی یہ تنظیم دراصل بدنام زمانہ ہندو دہشت گرد تنظیم ” راشٹریہ سوائم سیوک ”کا سیاسی ونگ ہے۔ ہٹلر نے24فروری 1920کو نازی پارٹی تشکیل دی جس کے صرف پانچ برس بعد 27ستمبر 1925کو بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر ناگپور میں راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کی بنیاد رکھی گئی۔ نریندر مودی آر ایس ایس کا رکن رہا ہے ۔ ہٹلر کی یہود مخالف مہم میں جس طرح سے لاکھوں یہودی قتل کیے گئے نریندر مودی نے بالکل یہی طریقہ اپنا رکھا ہے اور اس وقت دنیا اسکے ہاتھوں کشمیری مسلمانوں کا قتل عام دیکھ رہی ہے۔ آرایس ایس کا سیاسی ونگ بی جے پی بالکل وہی نظریہ رکھتی ہے جو نازی پارٹی کا رہا ہے ۔ نازیوں کے بھی وہی اہداف تھے جو بی جے پی کے ہیں ، نازی یہودیوں کو مٹانا چاہتے تھے جبکہ بی جے پی والے مسلمانوں کے وجود کے در پے ہیں ۔ ہٹلر گریٹر جرمنی چاہتا تھا جب کہ مودی گریٹر یا اکھنڈ بھارت ۔
نریندر مودی نے 2002میں بھارتی ریاست گجرات میںہزاروںمسلمانوںکو کاٹ ڈالا ۔ اسکی مسلمان دشمنی اور انکے ساتھ نفرت کا اندازہ اسکی اس بات سے لگایا جاسکتا ہے جب ایک انٹرویو میںاس سے پوچھا گیا کہ کیا اسے گجرات میںمسلمانوںکے قتل عام پردکھ ہے تواسکا جواب تھاکہ کارمیںسفر کے دوران اگر پہیہ کے نیچے کسی کتیا کا بچہ آجائے تو یہ تکلیف دہ تو ہو گا۔ آر ایس ایس اور اسکا سیاساسی ونگ بی جے پی ہندوئوں کے سوا دیگر نسلوں سے وابستہ لوگوں کے حق زندگی سے ہی انکاری ہیں۔یعنی جس انسان کا ہندو مذہب سے تعلق نہیں اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔انکا یہ خوفناک اور ڈرائونا نظریہ اب ڈھکا چھپا نہیں رہا کیونکہ بھارت بھر میں اقلیتوں اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف جاری خونی کھیل نے اب اس نظریے کا پردہ چاک کر دیا ہے۔آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہند انتہا پسندوں نے دسمبر 1992میں بابری مسجد شہید کر دی تھی ۔ مسجد کی شہادت کے لگ بھگ 28 برس بعد 30ستمبر 2020کو لکھنو کی ایک عدالت نے اس کیس کا فیصلہ سنایا اوربھارتیہ جنتا پارٹی کے شریک بانی اور بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، سابق وزرا ء مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سمیت بی جے پی کے کئی سینئر رہنمائوں کو مقدمے سے بری کردیا۔بی جے پی وہ خطرناک عفریت ہے جسے ہندوئوں کے سوا کسی اور کا وجود برداشت نہیں ۔ وہ اس پورے خطے کو” ہندو توا” کے رنگ میں رنگنا چاہتی ہے۔ جموںوکشمیر کی مسلم شناخت اسے کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے ۔ یہاں جگہ جگہ موجودمساجد، درگاہوں، زیارتوں اور خانقاہوںنے اسکا سکون غارت کر رکھا ہے لہذا وہ انہیں جلد از جلد مندروں میں تبدیل ہوتا دیکھنا چاہتی ہے۔ مودی حکومت نے جس تیزی کے ساتھ غیر کشمیری بھارتی ہندوئوں کو کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس فراہم کر کے انہیں مسلسل طور پر مقبوضہ علاقے میں آباد کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے اسکا مقصد ہی کشمیر میں مسلمانوںکی اکثریت ختم کر کے اسے قبل از اسلام کے عہد میں واپس دھکیل کر کفرستان میں تبدیل کرنا ہے۔ بی جے پی، آر آرایس نے جس طرح سے صدیوں پرانی بابری مسجد رام کی جائے پیدائش کا ڈھونگ رچا کر شہید کر ڈالی بالکل اسی طرز پر وہ کشمیرمیں مساجد ، درگاہوں اور خانقاہوں کو منہدم کر کے ان کی جگہ مندر بنانے کا مذموم منصوبہ رکھتی ہے۔ اس مقصد کیلئے سرینگراور دیگر مقامات پر کئی مساجسد اور خانقاہوں کی نشاندہی بھی کر لی گئی ہے۔ تاہم بی جے پی رہنمائوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جب دین کے حوالے سے کوئی معاملہ درپیش ہو تو مسلمان سردوں پر کفن باندھ کر میدان میں نکلتے ہیں ۔ دسمبر 1963میں جب درگاہ حضرت بل سے ہمارے پیارے نبی ۖ کے موئے مقدس کی چوری کا پر اسرار واقعہ پیش آیا توواقعہ کی خبر پھیلتے ہی شہرو دیہات میں لوگ گھروں سے نکل آئے تھے ۔ درگاہ کے سامنے پچاس ہزارکے قریب لوگوں نے سیاہ جھنڈے اٹھائے احتجاج کیا۔ کشمیریوں نے اپنا یہ احتجا ج چار جنوری 1964کو موئے مقدس کی بازیابی تک دن رات جاری رکھا۔ اس بھر پور احتجاج نے پنڈت نہرو کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔ بی جے پی کو اس تاریخی واقعے سے سبق حاصل کرکے اپنے مذموم منصوبوں سے باز رہنا چاہیے۔
بھارت کی وعدہ خلافیوں ، انتخابی دھاندلیوں او ردیگر ریشہ دوانیوں سے تنگ آکر کشمیریوں نے 1989میں اپنی تحریک آزادی کو ایک نیا موڑ دیا ۔ سرینگر اور وادی کشمیر کے دیگر قصبوں کے علاوہ جگہ جگہ بھارت کے خلاف احتجاجی مظاہروںکا سلسلہ شروع کر دیا، مظاہروں میں لاکھوں کے حساب سے کشمیریوںکی شرکت سے بھارت سخت سٹپٹا گیا ۔ جب اسے کشمیر ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہواتو بدنام زمانہ جگوہن ملہوتراکو `19جنوری 1990کودوبارہ کشمیرکا گورنر بنا دیا۔ قبل ازیں وہ اپریل 1984سے جولائی1998تک مقبوضہ کشمیرکے گورنر رہے تھے۔ کشمیری اپنے سروں پر کفن باندھ کر میدان میں کود پڑے تھے ، جذبہ جہا دسے سرشارکشمیری نوجوانوں کو قابو کرنا آسان نہ تھا ۔گورنر جگوہن نے 19جنوری 1990کو حلف اٹھانے کے پہلے روز ہی پورے سرینگر شہر کا محاصرہ کرایاجس دوران قابض بھارتی فورسز اہلکاروں نے گھروں میں گھس کر خواتین، بچوں اور معمر افراد سمیت مکینوں کو سخت مار پیٹا اورچار سو سے زائد نوجوانوں کو حراست میں لیا۔ اس مذموم کارروائی کے خلاف کرفیو کے باوجود سرینگر کے ہزاروں شہری احتجاج کیلئے سڑکوںپرنکل آئے۔ یہ 21جنوری کا دن تھا، احتجاجی مظاہرین چوٹہ بازار کی طرف مارچ کررہے تھے جہاں رات کو گھروں پر چھاپوں کے دوران بھارتی فوجیوںنے کئی خواتین کو آبرو ریزی کا نشانہ بنایا تھا۔ جلوس جب گائو کدل کے نزیک پہنچا تو پل کے دوسری جانب تعینات بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکاروں نے مظاہرین پر مشین گنوں کے دہانے کھول دیے اور ہرطرف لاشوں کے ڈھیر لگا دیے۔ گائو کدل کے نیچے بہنے والے دریائے جہلم کا پانی انسانی خون سے سرخ ہوگیا ۔ قابض فوجیوں کی سفاکانہ کارروائی میں پچاس سے زائد کشمیری شہید جبکہ ڈھائی سو کے لگ بھگ زخمی ہو گئے۔یہ جگموہن کا حلف اٹھانے کے فوراً بعد کشمیریوں کے لیے اسکا پہلا تحفہ تھا۔ اس وقت کا کٹھ پتلی وزیر اعلی فاروق عبداللہ جگومہن کی تعیناتی کے پہلے ہی روز استعفیٰ دیکر گھر چلا گیا تھا ۔گائو کدل قتل عام کے خلاف 25جنوری 1990کو ضلع کپواڑہ کے قصبے ہندواڑہ میں لوگ سراپا احتجاج تھے کہ بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس کی ایک گاڑ ی نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جسکے نتیجے میں کم از کم 25کشمیری شہید ہو گئے ۔ جنوری1990 کے مہینے میں کپواڑہ قصبے میں قتل کا تیسرا واقعہ رونما ہوا۔بھارتی فوجیوںنے 25جنوری کو کپواڑہ کے لوگوں خاص طور پر یہاں کے دکانداروںکو حکم دیاکہ وہ اگلے روز 26جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پرہڑتال کرنے سے باز رہیں اوراپنی دکانیںکھلی رکھیں۔لوگوں نے اس حکم کو خاطر میںنہ لایا اور بھارتی یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منایا اور مکمل ہڑتال کی۔اس پاداش میں بھارتی فوجیوں نے 27جنوری کو قبضے میں دکانداروں ، راہگیروںپر اندھا دھند فائرنگ کر کے 27افراد کو شہید کر دیا۔ 21مئی 1990کو بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکاروںنے میر وعظ مولوی فاروق شہید کے جنازے کے جلوس پرسرینگر کے علاقے حول میں اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ساٹھ سے زائد افراد شہید جبکہ بیسیوں زخمی ہو گئے ۔جگموہن نے اپنی ان سفاکانہ کارروائیوں کے ذریعے کشمیریوں کا جذبہ آزادی ٹھنڈا اور انکے حوصلے پست کرنیکی کوشش کی لیکن بیگناہ لوگوں کے قتل عام سے ان کے جذبہ حریت اور شوق شہادت کو مزید مہمیز ملی ۔
بھارت نے جب دیکھا کہ جگ موہن اس مقصد کو حاصل نہیں کر پا رہا جس کے لیے انہیں کشمیر بھیجا گیا تھا تو انہیں عہدے سے ہٹا کر 26مئی1990کو بھارتی خفیہ ادارے ‘را’ کے ایک سابق ڈائریکٹر گریش چندرا سکسینہ کو کشمیر کا گورنر لگا دیاجو تیرہ مارچ 1993تک کشمیریوںکا لہو بہاتارہا۔موصوف کے دور میں بھارتی فوج کے اہلکاروں نے 23اور 24فروری1991کی درمیانی رات کو ضلع کپواڑہ کے گائوں کنن پوشپورہ میں80کے قریب کشمیری خواتین کو بلالحاظ عمر اجتماعی آبروریزی کا نشانہ بنایا۔ 30ستمبر 1990کو بھارتی فوجیوں نے ہنڈوارہ قصبے میں اندھا دھند گولیاں برسا کر 27 کشمیر ی شہید کر دیے جبکہ قصبے کے پورے بازار اور ایک رہائشی علاقے کو خاکستر کر دیا۔ سکسینہ ہی کے دور میں سوپور قتل عام کا لرزہ خیز واقعہ پیش آیا۔6جنوری1993کو سوپور میں بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس کے اہلکاروں نے راہگیروں اور خاص طور پر دکانداروںپر بندوقوںکے دہانے کھول دیے اور ساٹھ کے لگ بھگ افراد کو شہید کر دیا۔ درندہ صفت اہلکاروںنے بانڈی پورہ سے سوپور آنے والی ایک مسافر بس پر بھی اندھا دھند فائرنگ کر دی جسکے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 15 مسافر شہید ہو گئے۔ قابض اہلکاروںنے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ قصبے میںدکانوںاور مکانوں کو بھی آگ لگادی اور ساڑے چار سو کے قریب عمارتوں کو نذر آتش کر دیا۔یہ بھارتی فورسز کی طرف سے نہتے کشمیریوں کے قتل عام کے کچھ چیدہ چیدہ واقعات ہیں جبکہ کشمیرکا کوئی ایسا شہر ، قصبہ یا گائوں نہیں جہاں قاتل فورسز نے خوں کی ہولی نہ کھیلی ہو۔ خبر رساں ادارے ”کشمیر میڈیا سروس” کے اعداد و شمار کے مطابق بھارتی فورسز نے جنوری 1989سے رواں برس 30ستمبر تک 95ہزار 6سو86کشمیریوں کو شہید کیا ، 1لاکھ 61ہزار 37کو گرفتار،11ہزار2سو 19خواتین کی آبروریزی کی جبکہ 1لاکھ 10ہزار3سو 67مکانات اور دیگر عمارات تباہ کیں۔
بھارت کی اس تمام تر سفاکیت کے باوجود کشمیریوں نے اپنی جدوجہد وجہد ہمت اور حوصلے سے جاری رکھی۔ انہوں نے 2008، 2010اور 2016میںبھارت کے خلاف زور دار احتجاجی تحریکیں چلائیںجس دوران سینکڑوں نوجوانوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ برہان مظفر وانی کی شہادت پر چلنے والی 2016کی احتجاجی تحریک کے دوران تو ہندو توا کے علمبردار مودی نے جبر و قہر کے تمام ریکارڈ توڑدیے ۔اس احتجاجی تحریک کے دوران دیڑھ سو کے قریب نوجوانوں کو شہید کرنے کے علاوہ پیلٹ چھرے مار کر سینکڑوں کشمیریوںکو بصارت سے محروم کر دیا گیا۔
مودی حکومت نے 5اگست 2019کو ایک اور سنگین وار کیا ۔ اس نے کشمیرکی خصوصی حیثیت چھین لی جسکا واحد مقصد کشمیر میں بھارتی ہندوئوں کو بسا کر یہاں مسلمانوںکی اکثریت کو اقلیت میں بدل کر ہندو توا نظر یے کو آگے بڑھانا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے اپنی فورسز کو کشمیری مزاحمت کاروں کو چن چن کو شہید کر نے اور انہیں جیلوں اور عقوبت خانوں میں پہنچانے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے ۔ وہ کشمیر میں صرف اور صرف اپنی امن پسند سیاسی سرگرمیاں چاہتی ہے۔ اس نے تمام مزاحمتی رہنمائوں اور کارکنوں سمیت زندگی کے ہرپیشے سے تعلق رکھنے والے ان تمام لوگوں کو جیلوں میں پہنچا دیا ہے جو آزادی کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں۔ بزرگ حریت قائد سید علی گیلانی گھر میںجبکہ محمد اشرف صحرائی اور الطاف احمد شاہ جیل میںمسلسل نظر بندی کے دوران شہید ہو گئے۔
غرض کشمیر اور کشمیریوں کے حوالے سے مودی حکومت کے منصوبے انتہائی خطرناک ہیں۔وہ کشمیر میں مسلمانوں کا وجود مٹانا چاہتی ہے لیکن ہمیں قرآن پاک کی صورہ آل عمران کی اس آیت کو نہیں بولنا چاہیے کہ :” اور وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے مستحکم تدبیر والا اللہ ہے۔” کشمیری گزشتہ ستر برس سے بالعموم اور گزشتہ تیس برس سے باالخصوص بھارتی سفاکیوں ، چیرہ دستیوں اور ریشہ دوانیوں کا پامردی کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنی استقامت ، حوصلے اور صبر کے ذریعے ایک بڑی فوجی طاقت کو زچ کر رکھا ہے ۔ وہ دن دور نہیں جب ظالم بھارت رسوا ہو گا اور فتح کشمیریوں کے قدم چومے گی۔ (ان شا اللہ)